Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور اس عورت کا معاملہ جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی (یعنی نکاح کیا) پس ہم نے اپنی روح اس میں پھونک دی اور اس کو اور اس کے بیٹے کو تمام دنیا کے لیے ایک نشانی بنا دیا
سیدہ مریم کا بغیر نام لئے ذکر فرمایا کہ اس نے عصمت کی حفاظت کی اور رواج کو توڑ کر رکھ دیا : 91۔ وہ عورت جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی وہ کون تھی ؟ وہ سیدہ مریم بنت عمران تھی جو سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ تھی جس نے قوم کے رواج کے خلاف قدم اٹھایا اور اس دلیری سے اٹھایا کہ قوم دیکھتی کی دیکھتی ہی رہ گئی اور اس نے قومی نظریہ کے خلاف اللہ تعالیٰ کے قانون کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ۔ سیدہ مریم منذورہ تھیں اور یہود کے رواج کے مطابق جو مرد و عورت ہیکل کی نذر کی جاتی شادی اس کے لئے ممنوع قرار دی گئی تھی لیکن یہ بات موسوی شریعت کی نہ تھی بلکہ قومی رواج تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بندی کو وہ قوت ہمت عطا فرمائی کہ اس نے زکریا (علیہ السلام) کے کہنے کے مطابق اس قومی رواج کو توڑنے کی ہمت کی اور شادی کرلی اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مناقب میں یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” التی احصنت فرجھا “۔ وہ عورت جس نے قانون الہی کے پیش نظر اپنی شرمگاہ کی حفاظت کے لئے شادی کی اور اس کو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا کرنے کی خوشخبری سنائی اور پھر وہ مبشر بیٹا عطا فرمایا تو اس کے متعلق جو کچھ پیش گوئی میں بتایا گیا تھا حرف بہ حرف پورا کیا ۔ مفسرین نے (فرجھا) سے مراد فرج القمیص مراد لیا اور پھر یہ بتایا کہ قمیص کے چار چاک ہوتے ہیں نیچے ‘ اوپر ‘ دائیں اور بائیں لہذا انہی چار چاکوں میں سے کسی چاک میں جبریل نے پھونک لگائی جس سے وہ حاملہ ہوگئیں ، یہ انہوں نے کہاں سے لیا ‘ انہی سے پوچھ لیا جائے ہمیں تو کوئی کچھ نہیں بتاتا الا یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم پیچھے سے یوں ہی پڑھتے چلے آ رہے ہیں اور پیچھے سے جو انہوں نے پڑھا ہے اس میں کہیں نبی اعظم وآخر ﷺ کا نام نہیں آتا کہ آپ ﷺ نے احصنت فرجھا کے کہیں یہ معنی ارشاد فرمائے ہوں ۔ ہاں ! ہم نے جو پڑھا اس میں نبی اعظم وآخر ﷺ کے بالکل یہی الفاظ کی زبان اقدس سے سیدہ فاطمہ کے متعلق پڑھے کہ آپ نے فرمایا ان فاطمہ احصنت فرجھا واللہ عزوجل ادخلھا باحصان فرجھا وذریتھا الجنہ “ (مجمع الزوائد ج 6 ص 202 ‘ کنز العمال ج 6 ص 219) اور ایک جگہ آپ نے ارشاد فرمایا ان فاطمۃ احصنت فرجھا فحرمھا اللہ وذریتھا علی النار (مستدرک حاکم ج 2 ص 152 ‘ خصائص کبری ج 4 ص 202 رحمتہ المھداہ ص 321 بحوالہ حلیہ ابو نعیم عبداللہ بن مسعود ؓ سے مرفوعا) ہم نے نبی اعظم وآخر ﷺ کا ارشاد اس طرح بھی پڑھا کہ ” ایھا امراۃ اتقت ربھا وحفظت فرجھا فتحت لھا ثمانیہ ابواب الجنۃ فقیل لھا ادخلی من حیث شئت (درمنثور ج 5 ص 343 بحوالہ طبرانی بسند حسن عن ابی ہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اذا صلت المراۃ خمسھا وصامت شھرھا وواحصنت فرجھا و اطاعت زوجھا قیل لھا ادخلی الجنہ من ای ابواب اجنہ شئت (ابن حبان ‘ کنز العمال ج 8 ص 269) چناچہ قرآن کریم کی نظر میں محصنہ کے معنی یہ ہیں : محصنۃ واحد ، محصنۃ اسم فاعل مؤنث احصان مصدر ، پاکدامن عورت ، شادی شدہ عورت ‘ عفیفہ دوشیزہ اور یہ بھی کہا گیا ہے ہے کہ پاکدامن عورت کو محصنۃ اور محصنۃ (اسم مفعول) شوہر والی عورت کو کہا جاتا ہے گویا ہر پاکدامن عورت اور شادی شدہ عورت کو بھی کہا جاتا ہے اور کسی اولاد والی عورت کو محصنۃ اس صورت میں کہا جاسکتا ہے جب اس کی شادی ہو اور جس مرد سے اس کا نکاح ہوا ہو اس سے اس کی اولاد پیدا ہوئی ہو تو اس کے محصنۃ ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا بلکہ وہی صحیح معنوں میں قرآن کریم کی زبان میں محصنہ ہوتی ہے جیسا کہ سورة النساء کی آیت 24 میں (آیت) ” والمحصنات من النسآء “ میں بیان کیا گیا ہے کہ تم پر وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو شادی شدہ ہوں ۔ جس کی تشریح رسول اللہ ﷺ نے احصنت فرجھا کے الفاظ سے فرمائی اور اس کی تشریح مزید نسخہ میں کریں کے الفاظ سے فرمائی گئی ۔ زیر نظر آیت ایک دوسری جگہ بھی قرآن کریم میں بیان ہوئی جہاں ارشاد فرمایا گیا کہ : (آیت) ” ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا وصدقت بکلمت ربھا وکتبہ وکانت من القنتین “۔ (التحریم 66 : 12) اور عمران کی بیٹی مریم (کی مثال پر غور کرو) جس نے (نکاح سے) اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے (نکاح کرکے) اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں تھی ۔ سورة الانبیاء کی آیت میں (التی احصنت فرجھا فنفخنا فیھا) فرمایا اور تحریم کی آیت میں (التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ) فرمایا گیا یعنی ضمیر مذکر کیوں لائی گئی ؟ اس کا بیان انشاء اللہ العزیز سورة التحریم ہی میں ہوگا ۔ اس جگہ فقط ایک حدیث پر نظر رکھیں اور غورکریں : عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ ﷺ ان خلق احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما نطفۃ ثم یکون علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمات فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی اوسعید ثم ینفخ فیہ الروح (بخاری ومسلم) رہا احصان کے معنی شادی شدہ ہونے کے تو وہ احادیث میں عام ہے اور خود رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے نکلا ہے جس کی مثالیں بیشمار ہیں یہاں چند ایک ملاحظہ کرلیں : 1۔ جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا جو زنا کا مرتکب ہوا تھا اس نے آکر ارتکاب جرم کا اقرار کیا اور چار بار آپ ﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں اس جرم کا مرتکب ہوا وکان قد احصن اور وہ آنے والا شخص شادی شدہ تھا ۔ (صحیح بخاری ص 350 پارہ 28 ‘ معانی الاثار طحاوی ج 2 ص 79) 2۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا زنیت یا رسول اللہ ﷺ فاعرض عنہ حتی ردد علیہ اربع مرات ” یارسول اللہ ﷺ میں زنا کا مرتکب ہوا اور آپ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا یہاں تک کہ اس نے چار بار ایسا کہا اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ابک جنون کیا تو دیوانہ ہے ؟ اس نے کہا اس بات کا بھی جواب دیا کہ لا میں دیوانہ نہیں ہوں ۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فھل احصنت کیا تو شادی شدہ ہے ؟ تو اس نے جوابا عرض کیا نعم یا رسول اللہ ﷺ میں شادی شدہ ہوں ۔ (صحیح بخاری ص 362 پارہ 28 ‘ صحیح مسلم ص 66 ج 2 ‘ ابو داؤد ج 4 ص 356) یہی روایت حضرت جابر ؓ سے بھی مروی ہے حوالہ ایضا۔ 3۔ ابوہریرہ ؓ سے اسی مضمون کی ایک روایت مروی ہے جس میں آپ ﷺ نے اقرار کرنے والے سے اس طرح دریافت فرمایا کہ ھل احصنت کیا تو شادی شدہ ہے اور مزید یہ بھی استفسار فرمایا کہ کیا تو نکاح کے بعد صحبت بھی کرچکا ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا ۔ (بخاری کتاب المحاربین ص 363) 4۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حق علی من زنی وقد حصن اذا قامت البینہ لازم بخاری ص 362 پارہ 28 ‘ صحیح مسلم ج دوم ص 65 ‘ ابو داؤد ج دوم ص 251 ‘ ترمذی 322 ج 3 ‘ ابن ماجہ ج 2 ص 186 ‘ دارمی 303 ‘ موطا امام مالک ج 3 ‘ موطا امام محمد 296 ‘ ام امام شافعی ج 6 ص 431 ‘ مشقی ابن الجارود 273 ‘ بیہقی ج 8 ص 211 ‘ مسند امام احمد وغیرہ) 5۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ من احصن منھم ومن لم یحصن شادی شدہ یا غیر شادی شدہ حد دونوں طرح کے انسانوں پر قائم ہوگی ۔ (صحیح مسلم ج 2 ص 71) 6۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ قدم رسول اللہ ﷺ ال مدینہ وقد زنی رجل بعد احصانہ بامراۃ من الیھود وقد احصنت الحدیث رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک مرد کو لایا گیا جو شادی شدہ تھا اور شادی کے بعد اس نے ایک شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرلیا جو یہود سے تھی ، اس طرح کے بیسیوں نہیں سینکڑوں حوالے کتب احادیث سے پیش کئے جاسکتے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احصنت کے معنی تزوجت یعنی شادی کرنے یا شادی ہو چکنے کے ہیں ، تفصیل اس کی پیچھے سورة مریم میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرمائیں ۔ اس شادی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے مریم کو عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا اور دونوں ماں بیٹا کو پوری دنیا کے لئے ایک نشانی بنا دیا ۔ ماں تو اس لئے نشانی ٹھہری کے اس نے قومی رواج کو جو غلط طریق سے قوم میں رواج پا گیا تھا کہ منذور اور منذورہ کی شادی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ان سے کوئی دنیا کا کام لیا جاسکتا ہے ٹھکرا دیا اللہ کے بتائے گئے طریقہ کے مطابق کتب آسمانی کا احترام کرتے ہوئے شادی کی جس سے پوری قوم مشتعل ہوگئی پھر نکاح کے بعد کچھ عرصہ تک ازدواجی تعلق قائم نہ ہوا جس کی وضاحت پیچھے گزر چکی اور جس کا ذکر بیٹے کی خوشخبری دینے والے فرشتہ سے سیدہ مریم (علیہ السلام) نے ” لم یمسسنی بشر “ کے الفاظ سے کیا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ نے یہ جواب سنایا کہ (آیت) ” ربک ھو علی ھین “۔ تیرے رب پر وہ بات بالکل آسان ہے کہ جس کی تجھے شکایت ہے وہ رفع ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی بات ہو کر رہے گی اس لئے کہ جس کام کا اللہ ارادہ کرتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے اس کے نہ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور خوشخبری میں بیٹے کے سارے نشانات بتا دیئے گئے کہ تیرا بیٹا ایسا ایسا ہوگا پھر جب وہ موعود بیٹا اللہ نے مریم ؓ کو عطا کیا تو فی الواقعہ ایسا ہی تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو اطلاع دی اس لئے وہ موعود ہونے اور اعلان کے مطابق ان صفات کا حامل ہونے کے باعث نشان ٹھہرا اور زیر نظر آیت میں دونوں کو نشانی بتایا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس طرح دونوں ماں بیٹا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی تھی ۔ اکثر لوگ یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ نذر مانے گئے مرد اور عورتوں کی شادی یہود کے ہاں منع بتائی جاتی تھی یہ سب جھوٹ ہے اور ان لوگوں کی خود ساختہ بات ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ یہ بالکل غلط بات ہے تاریخ وسیر کی کتابیں اس کی پوری پوری وضاحت کرچکی ہیں چناچہ مفسرین نے خود بھی اس بات کا اقرار کیا ہے جیسا کہ ” محررا “ (آل عمران) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ معتقا لخدمت بیت المقدس لا یدلی علیہ ولا استخدمہ ولا اشغلہ بشئی او خالصا للہ ولعبادتہ لا یعمل عمل الدنیا ولا یتزوج فیتفرغ لعمل الاخرہ وکان ھذا المنذر مشروعا عندھم لان الامر فی دینھم ان الولد اذا صار بحیث یمکن است خدا مہ کان یجب علیہ خدمت الا بوین فکانوا بالنذر ترکوا ذلک النوع من الانتفاع ویجعلون ھم محورین لخدمہ المسجد (روح البیان) اور ابن جریر میں بھی اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ منذوروں سے کوئی دنیوی کام نہیں لیا جاتا تھا وہ دینی خدمات پر وقف اور منذور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے شادی سے محروم ہوجایا کرتے تھے اور عام لوگوں کی طرح گھریلو زندگی بسر کرنا ان کے لئے سخت منع ہوجایا کرتی تھی ۔ شاہ عبدالقادر (رح) موضح القرآن میں فرماتے ہیں کہ : ” اس امت میں یہ بھی دستور تھا کہ بعض لوگ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اپنی خوشی سے دنیا کے کاروبار سے آزاد کرکے اللہ تعالیٰ کی نیاز کرتے تھے ۔ “ مولانا وحید الزمان تفسیر وحیدی میں رقم طراز ہیں کہ ” اس امت میں دستور تھا کہ بعضے لوگوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کرکے پھر تمام عمران کو دنیا کے کاموں میں نہ لگاتے وہ ہمیشہ گرجا میں رہتے اور وہاں ہی خدمت اور مجاوری کرتے نصاری میں ابھی بھی اس کا رواج ہے وہ مردوں کو مانک اور عورتوں کو نن کہتے “ اس بات کا ذکر تفصیل کے ساتھ البدایہ والنہایہ ج 2 ص 641 پر ابن کثیر (رح) نے بھی کیا ہے ۔ یہ برا رواج آج بھی دنیا کی بہت سی قوموں میں کسی نہ کسی رنگ میں پایا جاتا ہے جس کے اثر سموم سے آج بھی مسلمان نہیں بچے بلکہ ان میں ملنگ اور ملنگنیاں دیکھے جاتے ہیں جو اکثر درباروں اور خانقاہوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں ۔
Top