Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 12
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۚ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا١ؕ وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ١ؕ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذَ اللّٰهُ : اللہ نے لیا مِيْثَاقَ : عہد بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل وَبَعَثْنَا : اور ہم نے مقرر کیے مِنْهُمُ : ان سے اثْنَيْ عَشَرَ : بارہ نَقِيْبًا : سردار وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ مَعَكُمْ : بیشک میں تمہارے ساتھ لَئِنْ : اگر اَقَمْتُمُ : نماز قائم رکھو گے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَيْتُمُ : اور دیتے رہو گے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاٰمَنْتُمْ : اور ایمان لاؤ گے بِرُسُلِيْ : میرے رسولوں پر وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ : اور ان کی مدد کرو گے وَاَقْرَضْتُمُ : اور قرض دو گے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : حسنہ لَّاُكَفِّرَنَّ : میں ضرور دور کروں گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے گناہ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ : اور ضرور داخل کردوں گا تمہیں جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں فَمَنْ : پھر جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد مِنْكُمْ : تم میں سے فَقَدْ ضَلَّ : بیشک گمراہ ہوا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
اور لے چکا ہے اللہ عہد بنی اسرائیل سے اور مقرر کئے ہم نے ان میں سے بارہ سردار اور کہا اللہ نے میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم رکھو گے نماز اور دیتے رہو گے زکوٰة اور یقین لاؤ گے میرے رسولوں پر اور مدد کرو گے ان کی اور قرض دو گے اللہ کو اچھی طرح کا قرض تو البتہ دور کردوں گا میں تم سے گناہ تمہارے اور داخل کردوں گا تم کو باغوں میں کہ جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں پھر جو کوئی کافر ہوا تم میں سے اس کے بعد تو وہ بیشک گمراہ ہوا سیدھے راستے سے۔
اس آیت میں مسلمانوں سے عہد و میثاق لینے اور ان کے ایفاء عہد پر دنیا و آخرت میں اس کے بیش بہا نتائج کا ذکر کرنے کے بعد معاملہ کا دوسرا رخ سامنے لانے کے لئے دوسری آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ عہد و میثاق لینا صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ ان سے پہلے دوسری امتوں سے بھی اسی قسم کے میثاق لئے گئے تھے۔ مگر وہ اپنے عہد و میثاق میں پورے نہ اترے۔ اس لئے ان پر طرح طرح کے عذاب مسلط کئے گئے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی ایک عہد لیا تھا۔ اور ان سے عہد لینے کی یہ صورت اختیار کی گئی تھی کہ پوری قوم بنی اسرائیل جو بارہ خاندانوں پر مشتمل تھی انہیں سے ہر خاندان سے ایک سردار چنا گیا، اور ہر خاندان کی طرف سے اس کے سردار نے ذمہ داری اٹھائی کہ میں اور میرا پورا خاندان اس میثاق الہٰی کی پابندی کرے گا۔ اس طرح ان بارہ سرداروں نے پوری قوم بنی اسرائیل کی ذمہ داری لے لی۔ ان کے ذمہ یہ تھا کہ خود بھی اس میثاق کی پابندی کریں اور اپنے خاندان سے بھی کرائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عزت و فضیلت کے معاملہ میں اسلام کا اصل اصول تو یہ ہے کہ
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں بن فلاں چیزے نیست
رسول کریم ﷺ نے حجة الوداع کے تاریخی خطبہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اعلان فرمادیا ہے کہ اسلام میں عرب و عجم، کالے گورے اور اونچی نیچی ذات، پات کا کوئی اعتبار نہیں۔ جو اسلام میں داخل ہوگیا وہ سارے مسلمانوں کا بھائی ہوگیا۔ حسب، نسب، رنگ، وطن، زبان کے امتیازات جو جاہلیت کے بت تھے ان سب کو اسلام نے توڑ ڈالا، لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ انتظامی معاملات میں نظم قائم رکھنے کے لئے بھی خاندانی خصوصیات کا لحاظ نہ کیا جائے۔ یہ فطری امر ہے کہ ایک خاندان کے لوگ اپنے خاندان کے جانے پہچانے آدمی پر بہ نسبت دوسروں کے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ اور یہ شخص ان کی پوری نفسیات سے واقف ہونے کی بنا پر ان کے جذبات و خیالات کی زیادہ رعایت کرسکتا ہے۔ اسی حکمت عملی پر مبنی تھا کہ بنی اسرائیل کے بارہ خاندانوں سے جب عہد لیا گیا تو ہر خاندان کے ایک ایک سردار کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
اور اسی انتظامی مصلحت اور مکمل اطمینان و سکون کی رعایت اس وقت بھی کی گئی جب کہ قوم بنی اسرائیل پانی نہ ہونے کی وجہ سے سخت اضطراب میں تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے دعا کی اور بح کے لئے علیحدہ علیحدہ جاری کر دئے۔
سورة اعراف میں قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان عظیم کا اس طرح ذکر فرمایا ہے۔
وقطعنہم اثنتی عشرة اسباطا امما اور فانبجست منہ اثنتا عشرة عینا
ہم نے بانٹ دیئے ان کے بارہ خاندان بارہ جماعتوں میں۔ پھر پھوٹ نکلے پتھر سے بارہ چشمے (ہر ایک خاندان کے لئے جدا جدا)۔
اور یہ بارہ کا عدد بھی کچھ عجیب خصوصیات اور مقبولیت رکھتا ہے۔
جس وقت انصار مدینہ رسول کریم ﷺ کو مدینہ کے لئے دعوت دینے کے لیے حاضر ہوئے اور آپ ﷺ نے ان سے بذریعہ بیعت معاہدہ لیا تو اس معاہدہ میں بھی انصار کے بارہ سرداروں نے ذمہ داری لے کر آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی ان میں تین سردار قبیلہ اوس کے اور نو قبیلہ خزرج کے تھے (ابن کثیر)۔
اور صحیحین میں حضرت جابر بن سمرة ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کا کام اور نظام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ بارہ خلیفہ ان کی قیادت کریں گے۔ امام ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ اس حدیث کے کسی لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بارہ امام یکے بعد دیگرے مسلسل ہوں گے۔ بلکہ ان کے درمیان فاصلہ بھی ہوسکتا ہے۔ چناچہ چار خلفاء صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی المرتضیٰ ؓ مسلسل ہوئے اور درمیان کی کچھ مدت کے بعد پھر حضرت عمر بن عبد العزیز باجماع خلیفہ برحق مانے گئے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے معاہدہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارہ خاندانوں کے بارہ سرداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ان سے ارشاد فرمایاانی معکم یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے میثاق کی پابندی کی اور دوسروں سے پابندی کرانے کا عزم کیا تو میری امداد و نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔ اس کے بعد آیت مذکورہ میں اس میثاق کی چند اہم دفعات اور بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور ان پر عذاب الہٰی کا ذکر ہے۔
میثاق کی دفعات کا ذکر کرنے سے پہلے ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا کہانی معکم جس میں دو باتیں بتلا دی گئیں ہیں۔ ایک یہ کہ اگر میثاق پر قائم رہے تو میری امداد تمہارے ساتھ رہے گی اور تم ہر قدم پر اس کا مشاہدہ کرو گے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے، اور اس میثاق کی نگرانی فرما رہا ہے، تمہارا کوئی عزم و ارادہ اور فکر و خیال یا حرکت و عمل اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ وہ تمہاری خلوتوں کے رازوں کو بھی دیکھتا اور سنتا ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی نیتوں اور ارادوں سے بھی واقف ہے۔ میثاق کی خلاف ورزی کرکے تم کسی طرح بھی اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ اس کے بعد میثاق کی دفعات میں سب سے پہلے اقامت صلوة کا ذکر ہے۔ اور پھر اداء زکوٰة کا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰة کے فرائض اسلام سے پہلے حضرت موسیٰ ؑ کی قوم پر بھی عائد تھے۔ اور دوسرے قرآنی اشارات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرائض صرف بنی اسرائیل ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر پیغمبر اور ہر شریعت میں ہمیشہ عائد رہے ہیں۔ تیسرا نمبر میثاق میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں پر ایمان لائیں اور ان کے مقصد رشدو ہدایت میں ان کی امداد کریں۔
بنی اسرائیل میں چونکہ بہت سے رسول آنے والے تھے، اس لئے ان کو خصوصیت سے اس کی تاکید فرمائی گئی اور اگرچہ ایمانیات کا درجہ عملیات، نماز، زکوٰة سے رتبةً مقدم ہے۔ مگر میثاق میں مقدم اس کو رکھا گیا جس پر بالفعل عمل کرنا تھا۔ آنے والے رسول تو بعد میں آئیں گے، ان پر ایمان لانے اور ان کی امداد کرنے کا وقوع بھی بعد میں ہونے والا تھا اس لئے اس کو موخر بیان فرمایا گیا۔
چوتھا نمبر میثاق میں یہ ہے کہاقرضتم اللّٰہ قرضاً حسناً (یعنی تم اللہ تعالیٰ کو قرض دو ، اچھی طرح کا قرض)۔ اچھی طرح کے قرض کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ ہو، کوئی دنیوی غرض اس میں شامل نہ ہو، اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب چیز خرچ کرے۔ ردّی اور بیکار چیزیں دے کر نہ ٹالے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو قرض دینے سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ قرض کا بدلہ قانوناً و عرفاً اور اخلاقاً واجب الاداء سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ یقین کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ کریں کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔
اور زکوٰة فرض کا ذکر مستقلاً کرنے کے بعد اس جگہ قرض حسن کا ذکر یہ بتلا رہا ہے کہ اس سے مراد زکوٰة کے علاوہ دوسرے صدقات و خیرات ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان صرف زکوٰة ادا کرکے ساری مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوجاتا۔ زکوٰة کے علاوہ بھی کچھ اور مالی حقوق انسان کے ذمہ لازم ہیں۔ کسی جگہ مسجد نہیں تو تعمیر مسجد اور دینی تعلیم کے لئے حکومت متکفل نہیں ہے تو دینی تعلیم کا انتظام مسلمانوں ہی پر لازم ہے۔ فرق اتنا ہے کہ زکوٰة فرض عین اور یہ فرض کفایہ ہے
فرض کفایہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ قوم کے چند افراد یا کسی جماعت نے ان ضرورتوں کو پورا کردیا تو دوسرے مسلمان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور اگر کسی نے بھی نہ کیا تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔ آج کل دینی تعلیم اور اس کے مدارس جس کسمپرسی اور بےکسی کے عالم میں ہیں ان کو وہی لوگ جانتے ہیں، جنہوں نے اس کو دین کی اہم خدمت سمجھ کر قائم کیا ہوا ہے۔ زکوٰة ادا کرنے کی حد تک مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے ذمہ فرض ہے۔ اور یہ جاننے کے باوجود بہت کم افراد ہیں جو زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ اور ادا کرنے والوں میں بھی بہت کم افراد ہیں جو پورا حساب کرکے پوری زکوٰة ادا کرتے ہیں، اور جو خال خال پوری زکوٰة ادا کرنے والے بھی ہیں تو وہ بالکل یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اب ہمارے ذمہ اور کچھ نہیں۔ ان کے سامنے مسجد کی ضرورت آئے تو زکوٰة کا مال پیش کرتے ہیں اور دینی مدارس کی ضرورت پیش آئے تو صرف زکوٰة کا مال دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ فرائض زکوٰة کے علاوہ مسلمانوں پر عائد ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت اور اس کی امثال بہت سی آیات نے اس کو واضح کردیا ہے۔
میثاق کی اہم دفعات بیان کرنے کے بعد بھی یہ بتلا دیا کہ اگر تم نے میثاق کی پابندی کی تو اس کی جزاء یہ ہوگی کہ تمہارے پچھلے گناہ بھی معاف کر دئے جائیں گے اور دائمی راحت و عافیت کی بےمثال جنت میں رکھا جائے گا اور آخر میں یہ بھی بتلا دیا کہ ان تمام واضح بیانات و ارشادات کے بعد بھی اگر کسی نے کفر و سرکشی اختیار کی تو وہ ایک صاف سیدھی راہ چھوڑ کر اپنے ہاتھوں تباہی کے گڑھے میں جاگرا۔۔
Top