Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 34
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ١ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی مِنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ تَقْدِرُوْا : تم قابو پاؤ عَلَيْهِمْ : ان پر فَاعْلَمُوْٓا : تو جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم فرمانے والا
مگر جنہوں نے توبہ کی تمہارے قابو پانے سے پہلے تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسری آیت اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ میں ایک استثناء ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ڈاکو اور باغی اگر حکومت کے گھیرے میں آنے اور ان پر قابو پانے سے پہلے پہلے جب کہ ان کی قوت و طاقت بحال ہے، اس حالت میں اگر توبہ کرکے رہزنی سے خود ہی باز آجائیں تو ڈاکہ کی یہ حد شرعی ان سے ساقط ہوجائے گی، یہ استثناء عام قانون حدود سے مختلف ہے، کیونکہ دوسرے جرائم چوری زنا وغیرہ میں جرم کرنے اور قاضی کی عدالت میں جرم ثابت ہوجانے کے بعد اگر مجرم سچے دل سے توبہ بھی کرے تو گو اس توبہ سے آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی، مگر دنیا میں حد شرعی معاف نہ ہوگی، جیسا کہ چند آیتوں کے بعد چوری کی سزا کے تحت میں اس کا تفصیلی بیان آئے گا۔
حکمت اس استثناء کی یہ ہے کہ ایک طرف ڈاکوؤں کی سزا میں یہ شدت اختیار کی گئی ہے کہ پوری جماعت میں کسی ایک سے بھی جرم کا صدور ہو تو سزا پوری جماعت کو دی جاتی ہے، اس لئے دوسری طرف سے استثناء کے ذریعہ معاملہ کو ہلکا کردیا گیا، کہ توبہ کرلیں تو سزائے دنیا بھی معاف ہوجائے، اس کے علاوہ اس میں ایک سیاسی مصلحت بھی ہے کہ ایک طاقتور جماعت پر ہر وقت قابو پانا آسان نہیں ہوتا، اس لئے ان کے واسطے ترغیب کا دروازہ کھلا رکھا گیا، کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہوجائیں۔
نیز اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ قتل نفس ایک انتہائی سزا ہے، اس میں قانون اسلام کا رخ یہ ہے کہ اس کا وقوع کم سے کم ہو اور ڈاکہ کی صورت میں ایک جماعت کا قتل لازم آتا ہے اس لئے ترغیبی پہلو سے ان کو اصلاح کی دعوت بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی گئی، اسی کا یہ اثر تھا کہ علی اسدی جو مدینہ طیبہ کے قرب میں ایک جتھہ جمع کر کے آنے جانے والوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا، ایک روز قافلہ میں کسی قاری کی زبان سے یہ آیت اس کے کان میں پڑگئی، (آیت) یعبادی الذین اسرفوا۔ قاری کے پاس پہنچے، اور دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی دوسری مرتبہ آیت سنتے ہی اپنی تلوار میان میں داخل کی، اور رہزنی سے توبہ کرکے مدینہ طیبہ پہنچے، اس وقت مدینہ پر مروان بن حکم حاکم تھے، حضرت ابوہریرہ ؓ ان کا ہاتھ پکڑ کر امیر مدینہ کے پاس لے گئے، اور قرآن کی آیت مذکورہ پڑھ کر فرمایا کہ آپ اس کو کوئی سزا نہیں دے سکتے۔
حکومت بھی ان کے فساد و رہزنی سے عاجز ہو رہی تھی سب کو خوشی ہوئی۔
اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں حارثہ بن بدر بغاوت کرکے نکل گیا، اور قتل و غارت گری کو پیشہ بنالیا، مگر پھر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور توبہ کرکے واپس آیا، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس پر حد شرعی جاری نہیں فرمائی۔
یہاں یہ بات قابل یادداشت ہے کہ حد شرعی کے معاف ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حقوق العباد جن کو اس نے ضائع کیا ہے وہ بھی معاف ہوجائیں، بلکہ اگر کسی کا مال لیا ہے اور وہ موجود ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے، اور کسی کو قتل کیا ہے یا زخمی کیا ہے تو اس کا قصاص اس پر لازم ہے، البتہ چونکہ قصاص حق العبد ہے تو اولیاء مقتول یا صاحب حق کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا، اور جو کوئی مالی نقصان کسی کو پہنچایا ہے اس کا ضمان ادا کرنا یا اس سے معاف کرانا لازم ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور جمہور فقہاء کا یہی مسلک ہے، اور اگر غور کیا جائے تو یہ بات یوں بھی ظاہر ہے کہ حقوق العباد سے خلاصی حاصل کرنا خود توبہ کا ایک جز ہے، بدون اس کے توبہ ہی مکمل نہیں ہوتی، اس لئے کسی ڈاکو کو تائب اسی وقت مانا جائے گا جب وہ حقوق العباد کو ادا یا معاف کرالے۔
Top