Maarif-ul-Quran - An-Noor : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
یہی سزا ہے ان کی جو لڑتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو کہ ان کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھائے جاویں یا کاٹے جاویں انکے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے یا دور کردئیے جاویں اس جگہ سے یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے،
جرم و سزا کے چند قرآنی ضابطے
اِنَّمَا جَزٰۗؤ ُ ا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادً۔
خلاصہ تفسیر
جو لوگ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول ﷺ سے لڑتے ہیں اور (اس لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ) ملک میں فساد (یعنی بدامنی) پھیلاتے پھرتے ہیں (مراد اس سے رہزنی یعنی ڈکیتی ہے، ایسے شخص پر جس کو اللہ نے قانون شرعی سے جس کا اظہار رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے ہوا ہے امن دیا ہو یعنی مسلمان پر اور ذمی پر، اور اسی لئے اس کو اللہ اور رسول ﷺ سے لڑنا کہا گیا ہے، کہ اس نے اللہ کے دئیے ہوئے امن کو توڑا، اور چونکہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے اس کا ظہور ہوا اس لئے رسول کا تعلق بھی بڑھا دیا غرض جو لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں) ان کی یہی سزا ہے کہ (ایک حالت میں تو) قتل کئے جائیں (وہ حالت یہ ہے کہ ان رہزنوں نے کسی کو صرف قتل کیا ہو اور مال لینے کی نوبت نہ آئی ہو) یا (اگر دوسری حالت ہوئی ہو تو) سولی دیئے جائیں (یہ وہ حالت ہے کہ انہوں نے مال بھی لیا ہو اور قتل بھی کیا ہو) یا (اگر تیسری حالت ہوئی ہو تو) ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے (یعنی داہنا ہاتھ بایاں پاؤ ں) کاٹ دیئے جائیں (یہ وہ حالت ہے کہ صرف مال لیا قتل نہ کیا ہو) یا (اگر چوتھی حالت ہوئی ہو تو) زمین پر (آزادانہ آباد رہنے) سے نکال (کر جیل میں بھیج) دیئے جائیں (یہ وہ حالت ہے کہ نہ مال لیا ہو نہ قتل کیا ہو قصد کرنے کے بعد ہی گرفتار ہوگئے ہوں) یہ (سزائے مذکور تو) ان کے لئے دنیا میں سخت رسوائی (اور ذلت) ہے، اور ان کو آخرت میں (جو) عذاب عظیم ہوگا (سو الگ) ہاں مگر جو لوگ قبل اس کے کہ تم ان کو گرفتار کرو توبہ کرلیں تو (اس حالت میں) جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ (اپنے حقوق) بخش دیں گے (اور توبہ قبول کرنے میں) مہربانی فرما دیں گے (مطلب یہ کہ اوپر جو سزا مذکور ہوئی ہے، وہ حد اور حق اللہ کے طور پر ہے جو کہ بندہ کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتی قصاص و حق العبد کے طور پر نہیں جو کہ بندہ کے معاف کرنے سے معاف ہوجاتا ہے، پس جب کہ قبل گرفتاری کے ان لوگوں کا تائب ہونا ثابت ہوجاوے تو حد ساقط ہوجاوے گی، جو کہ حق اللہ تھا، البتہ حق العبد باقی رہے گا، پس اگر مال لیا ہوگا تو اس کا ضمان دینا ہوگا، اور اگر قتل کیا ہوگا تو اس کا قصاص لیا جاوے گا، لیکن اس ضمان و قصاص کے معاف کرنے کا حق صاحب مال و ولی مقتول کو حاصل ہوگا)۔

معارف و مسائل
قرآنی قوانین کا عجیب و غریب انقلابی اسلوب
پہلی آیتوں میں ہابیل کا واقعہ قتل اور اس کا جرم عظیم ہونا مذکور تھا، مذکورہ آیات میں اور ان کے بعد قتل و غارت گری، ڈاکہ زنی اور چوری کی شرعی سزاؤں کا بیان ہے، ڈاکہ اور چوری کی سزاؤں کے درمیان خوف خدا اور بذریعہ طاعات اس کا قرب حاصل کرنے کی تلقین ہے، قرآن کریم کا یہ اسلوب نہایت لطیف طریقہ پر ذہنی انقلاب پیدا کرنے والا ہے، کہ وہ دنیا کی تعزیرات کی کتابوں کی طرح صرف جرم و سزا کے بیان پر کفایت نہیں کرتا، بلکہ ہر جرم و سزا کے ساتھ خوف خدا و آخرت مستحضر کرکے انسان کا رخ ایک ایسے عالم کی طرف موڑ دیتا ہے، جس کا تصور اس کو ہر عیب و گناہ سے پاک کردیتا ہے، اور اگر حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو ثابت ہوگا کہ خوف خدا و آخرت کے بغیر دنیا کا کوئی قانون، پولیس اور فوج دنیا میں انسداد جرائم کی ضمانت نہیں دے سکتی، قرآن کریم کا یہی اسلوب حکیمانہ اور مربّیانہ طرز ہے، جس نے دنیا میں انقلاب برپا کیا، اور ایسے انسانوں کا ایک معاشرہ پیدا کیا جو اپنے تقدس میں فرشتوں سے بھی اونچا مقام رکھتے ہیں۔
شرعی سزاؤں کی تین قسمیں
ڈاکہ اور چوری کی شرعی سزائیں جن کا ذکر آیات مذکورہ میں ہے، ان کی تفصیل اور متعلقہ آیات کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ان سزاؤں سے متعلق شرعی اصطلاحات کی کچھ وضاحت کردی جائے، جن سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لکھے پڑھے لوگوں کو بھی اشکالات پیش آتے ہیں، دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو مطلقاً تعزیرات پاکستان کا نام دیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی جرم سے متعلق ہو، تعزیرات ہند، تعزیرات پاکستان وغیرہ کے ناموں سے جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں، وہ ہر قسم کے جرائم اور ہر طرح کی سزاؤں پر مشتمل ہیں، لیکن شریعت اسلام میں معاملہ ایسا نہیں، بلکہ جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں قرار دی گئیں۔
حدود، قصاص، تعزیرات، ان تینوں قسموں کی تعریف اور مفہوم سمجھنے سے پہلے ایک یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ جن جرائم سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف یا نقصان پہنچتا ہے اس میں مخلوق پر بھی ظلم ہوتا ہے، اور خالق کی بھی نافرمانی ہوتی ہے، اس لئے ہر ایسے جرم میں حق اللہ اور حق العبد دونوں شامل ہوتے ہیں، اور انسان دونوں کا مجرم بنتا ہے۔
لیکن بعض جرائم میں حق العبد کی حیثیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، اور بعض میں حق اللہ کی حیثیت زیادہ نمایاں ہے، اور احکام میں مدار کار اسی غالب حیثیت پر رکھا گیا ہے۔
دوسری بات یہ جاننا ضروری ہے کہ شریعت اسلام نے خاص خاص جرائم کے علاوہ باقی جرائم کی سزاؤں کے لئے کوئی پیمانہ متعین نہیں کیا، بلکہ قاضی کے اختیار میں دیا ہے کہ ہر زمانہ اور ہر مکان اور ہر ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے، یہ بھی جائز ہے کہ ہر جگہ اور ہر زمانے کی اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ رکھتے ہوئے قاضیوں کے اختیارات پر کوئی پابندی لگاوے اور جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ دے کر اس کا پابند کر دے، جیسا کہ قرون متاخرہ میں ایسا ہوتا رہا ہے، اور اس وقت تمام ممالک میں تقریباً یہی صورت رائج ہے۔
اب سمجھئے کہ جن جرائم کی کوئی سزا قرآن و سنت نے متعین نہیں کی بلکہ حکام کی صواب دید پر رکھا ہے، ان سزاؤں کو شرعی اصطلاح میں ”تعزیرات“ کہا جاتا ہے، اور جن جرائم کی سزائیں قرآن و سنت نے متعین کردی ہیں وہ دو قسم پر ہیں، ایک وہ جن میں حق اللہ کا غالب قرار دیا گیا ہے ان کی سزا کو ”حد“ کہا جاتا ہے جس کی جمع ”حدود“ ہے، دوسرے وہ جن میں حق العبد کو ازروئے شرع غالب مانا گیا ہے، اس کی سزا کو“ قصاص“ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے حدود و قصاص کا بیان پوری تفصیل و تشریح کے ساتھ خود کردیا ہے باقی تعزیری جرائم کی تفصیلات کو بیان رسول ﷺ اور حکام وقت کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جن جرائم کی سزا کو بطور حق اللہ متعین کرکے جاری کیا ہے ان کو حدود کہتے ہیں، اور جن کو بطور حق العبد جاری فرمایا ہے ان کو قصاص کہتے ہیں، اور جن جرائم کی سزا کا تعین نہیں فرمایا اس کو تعزیر کہتے ہیں، سزا کی ان تینوں قسموں کے احکام بہت سی چیزوں میں مختلف ہیں، جو لوگ اپنے عرف عام کی بناء پر ہر جرم کی سزا کو تعزیر کہتے ہیں اور شرعی اصطلاحات کے فرق پر نظر نہیں کرتے ان کو شرعی احکام میں بکثرت مغالطے پیش آئے ہیں۔
تعزیری سزائیں حالات کے ماتحت ہلکی سے ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں، سخت سے سخت بھی اور معاف بھی کی جاسکتی ہیں، ان میں حکام کے اختیارات وسیع ہیں، اور حدود میں کسی حکومت یا کسی حاکم و امیر کو ادنیٰ تغیر و تبدّل یا کمی بیشی کی اجازت نہیں ہے، اور نہ زمان و مکان کے بدلنے کا ان پر کوئی اثر پڑتا ہے، نہ کسی امیر و حاکم کو اس کے معاف کرنے کا حق ہے، شریعت اسلام میں حدود صرف پانچ ہیں، ڈاکہ، چوری، زنا، تہمت زنا کی سزائیں، یہ سزائیں قرآن کریم میں منصوص ہیں، پانچویں شراب خوری کی حد ہے، جو اجماع صحابہ کرام سے ثابت ہوئی ہے، اس طرح کل پانچ جرائم کی سزائیں معین ہوگئیں، جن کو ”حدود“ کہا جاتا ہے، یہ سزائیں جس طرح کوئی حاکم و امیر کم یا معاف نہیں کرسکتا، اسی طرح توبہ کرلینے سے بھی دنیوی سزا کے حق میں معافی نہیں ہوتی، ہاں آخرت کا گناہ مخلصانہ توبہ سے معاف ہو کر وہاں کا کھاتہ بیباق ہوجاتا ہے، ان میں سے صرف ڈاکو کی سزا میں ایک استثناء ہے کہ ڈاکو اگر فتاری سے قبل توبہ کرے اور معاملات سے اس کی توبہ پر اطمینان ہوجائے تو بھی یہ حد ساقط ہوجائے گی، گرفتاری کے بعد کی توبہ معتبر نہیں، اس کے علاوہ دوسری حدود توبہ سے بھی دنیا کے حق میں معاف نہیں ہوتیں، خواہ یہ توبہ گرفتاری سے قبل ہو یا بعد میں، تمام تعزیری جرائم میں حق کے موافق سفارشات سنی جاسکتی ہیں، حدود اللہ میں سفارش کرنا بھی جائز نہیں، اور ان کا سننا بھی جائز نہیں، رسول کریم ﷺ نے اس کی سخت ممانعت فرمائی ہے، حدود کی سزائیں عام طور پر سخت ہیں، اور ان کے نفاذ کا قانون بھی سخت ہے، کہ ان میں کسی کو کسی کمی بیشی کی کسی حال میں اجازت نہیں، نہ کوئی ان کو معاف کرسکتا ہے، جہاں سزا اور قانون کی سختی رکھی گئی ہے وہیں معاملہ کو معتدل کرنے کے لئے تکمیل جرم اور تکمیل ثبوت جرم کے لئے شرطیں بھی نہایت کڑی رکھی گئی ہیں، ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو حد ساقط ہوجاتی ہے، بلکہ ادنیٰ سا شبہ بھی ثبوت میں پایا جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے، اسلام کا مسلم قانون اس میں یہ ہے کہ الحدود تندرء بالشبھات یعنی حدود کو ادنیٰ شبہ سے ساقط کردیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جن صورتوں میں حد شرعی کسی شبہ یا کسی شرط کی کمی کی وجہ سے ساقط ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے جس سے اس کو جرم پر اور جرأت پیدا ہو، بلکہ حاکم اس کے مناسب حال اس کو تعزیری سزا دے گا اور شریعت کی تعزیری سزائیں بھی عموماً بدنی اور جسمانی سزائیں ہیں، جن میں عبرت انگیز ہونے کی وجہ سے انسداد جرائم کا مکمل انتظام ہے، فرض کیجئے کہ زنا کے ثبوت پر صرف تین گواہ ملے، اور گواہ عادل ثقہ ہیں جن پر چھوٹ کا شبہ نہیں ہو سکتا، مگر ازروئے قانون شرع چوتھا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر حد شرعی جاری نہیں ہوگی، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو کھلی چھٹی دے دیجائے، بلکہ حاکم وقت اس کو مناسب تعزیری سزا دے گا جو کوڑے لگانے کی صورت میں ہوگی، یا چوری کے ثبوت کے لئے جو شرائط مقرر ہیں اس میں کوئی کمی یا شبہ پیدا ہونے کی وجہ سے اس پر حدّ شرعی ہاتھ کاٹنے کی جاری نہیں ہوسکتی، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل آزاد ہوگیا، بلکہ اس کو دوسری تعزیری سزائیں حسب حال دی جائیں گی۔
قصاص کی سزا بھی حدود کی طرح قرآن میں متعین ہے، کہ جان کے بدلہ میں جان لی جائے زخموں کے بدلہ میں مساوی زخم کی سزا دی جائے، لیکن فرق یہ ہے کہ حدود کو بحیثیت حق اللہ نافذ کیا گیا ہے، اگر صاحب حق انسان معاف بھی کرنا چاہے تو معاف نہ ہوگا، اور حد ساقط نہ ہوگی، مثلاً جس کا مال چوری کیا ہے وہ معاف بھی کر دے تو چوری کی شرعی سزا معاف نہ ہوگی، بخلاف قصاص کے کہ اس میں حق العبد کی حیثیت کو قرآن و سنت نے غالب قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ قاتل پر جرم قتل ثابت ہوجانے کے بعد اس کو ولی مقتول کے حوالہ کردیا جاتا ہے وہ چاہے تو قصاص لے لے، اور اس کو قتل کرا دے، اور چاہے معاف کر دے۔
اسی طرح زخموں کے قصاص کا بھی یہی حال ہے، یہ بات آپ پہلے معلوم کرچکے ہیں کہ حدود یا قصاص کے ساقط ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے بلکہ حاکم وقت تعزیری سزا جتنی اور جیسی مناسب سمجھے دے سکتا ہے، اس لئے یہ شبہ نہ ہونا چاہیئے کہ اگر خون کے مجرم کو اولیاء مقتول کے معاف کرنے پر چھوڑ دیا جائے تو قاتلوں کی جرأت بڑھ جائے گی اور قتل کی واردات عام ہوجائیں گی، کیونکہ اس شخص کی جان لینا تو ولی مقتول کا حق تھا وہ اس نے معاف کردیا، لیکن دوسرے لوگوں کی جانوں کی حفاظت حکومت کا حق ہے، وہ اس حق کے تحفظ کے لئے اس کو عمر قید کی یا دوسری قسم کی سزائیں دے کر اس خطرہ کا انسداد کرسکتی ہے۔
یہاں تک شرعی سزاؤں حدود، قصاص اور تعزیرات کی اصطلاحات شرعیہ اور ان کے متعلق ضروری معلومات کا بیان ہوا، اب ان کے متعلق آیات کی تفسیر اور حدود کی تفصیل دیکھئے، پہلی آیت میں ان لوگوں کی سزا کا بیان ہے جو اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ مقابلہ اور محاربہ کرتے ہیں، اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔
یہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کے ساتھ محاربہ اور زمین میں فساد کا کیا مطلب ہے، اور کون لوگ اس کے مصداق ہیں، لفظ ”محاربہ“ حرب سے ماخوذ ہے، اور اس کے اصلی معنی سلب کرنے اور چھین لینے کے ہیں، اور محاورات میں یہ لفظ سَلَم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی امن و سلامتی کے ہیں، تو معلوم ہوا کہ حرب کا مفہوم بدامنی پھیلانا ہے، اور ظاہر ہے کہ اِکّا دکا چوری یا قتل و غارت گری سے امن عامہ سلب نہیں ہوتا، بلکہ یہ صورت جبھی ہوتی ہے جبکہ کوئی طاقتور جماعت رہزنی اور قتل و غارت گری پر کھڑی ہوجائے، اس لئے حضرات فقہاء نے اس سزا کا مستحق صرف اس جماعت یا فرد کو قرار دیا ہے جو مسلح ہو کر عوام پر ڈاکے ڈالے، اور حکومت کے قانون کو قوت کے ساتھ توڑنا چاہے جس کو دوسرے لفظوں میں ڈاکو یا باغی کہا جاسکتا ہے، عام انفرادی جرائم کرنے والے چورگرہ کٹ وغیرہ اس میں داخل نہیں ہیں (تفسیر مظہری)۔
دوسری بات یہاں یہ قابل غور ہے کہ اس آیت میں محاربہ کو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ ڈاکو یا بغاوت کرنے والے جو مقابلہ یا محاربہ کرتے ہیں وہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ کوئی طاقتور جماعت جب طاقت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے قانون کو توڑنا چاہے تو اگرچہ ظاہر میں اس کا مقابلہ عوام اور انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی جنگ حکومت کے ساتھ ہے اور اسلامی حکومت میں جب قانون اللہ اور رسول ﷺ کا نافذ ہو تو یہ محاربہ بھی اللہ و رسول ﷺ ہی کے مقابلہ میں کہا جائیگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت میں جس سزا کا ذکر ہے یہ ان ڈاکوؤں اور باغیوں پر عائد ہوتی ہے جو اجتماعی قوت کے ساتھ حملہ کرکے امن عامہ کو برباد کریں، اور قانون حکومت کو اعلانیہ توڑنے کی کوشش کریں اور ظاہر ہے کہ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، مال لوٹنے، آبرو پر حملہ کرنے سے لے کر قتل و خونریزی تک سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں، اسی سے مقاتلہ اور محاربہ میں فرق معلوم ہوگیا کہ لفظ مقاتلہ خون ریز لڑائی کے لئے بولا جاتا ہے مگر کوئی قتل ہو یا نہ ہو، اور گو ضمناً مال بھی لوٹا جائے، اور لفظ محاربہ طاقت کے ساتھ بدامنی پھیلانے اور سلامتی کو سلب کرنے کے معنی میں ہے۔ اسی لئے یہ لفظ اجتماعی طاقت کے ساتھ عوام کی جان و مال و آبرو میں سے کسی چیز پر دست درازی کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس کو رہزنی، ڈاکہ اور بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس جرم کی سزا قرآن کریم نے خود متعین فرما دی اور بطور حق اللہ یعنی سرکاری جرم کے نافذ کیا، جس کو اصطلاح شرع میں حد کہا جاتا ہے، اب سنئے کہ ڈاکہ اور رہزنی کی شرعی سزا کیا ہے آیت مذکورہ میں، رہزنی کی چار سزائیں مذکور ہیں
اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۔ ”یعنی اس کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو زمین سے نکال دیا جائے“۔ اس میں سے پہلی سزاؤں میں مبالغہ کا لفظ باب تفعیل سے استعمال فرمایا جو تکرار فعل اور شدت پر دلالت کرتا ہے، اس میں صیغہ جمع استعمال فرما کر اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ ان کا قتل یا سولی چڑھانا یا ہاتھ پاؤں کاٹنا عام سزاؤں کی طرح نہیں کہ جس فرد پر جرم ثابت ہو صرف اسی فرد پر سزا جاری کی جائے بلکہ یہ جرم جماعت میں سے ایک فرد سے بھی صادر ہوگیا تو پوری جماعت کو قتل یا سولی یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا دی جائے گی۔
نیز اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ یہ قتل و صلب وغیرہ قصاص کے طور پر نہیں کہ اولیاء مقتول کے معاف کردینے سے معاف ہوجائے، بلکہ یہ حد شرعی بحیثیت حق اللہ کے نافذ کی گئی ہے جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہے وہ معاف بھی کردیں تو شرعاً سزا معاف نہ ہوگی، یہ دونوں حکم بصیغہ تفعیل ذکر کرنے سے مستفاد ہوئے (تفسیر مظہری وغیرہ)۔
رہزنی کی یہ چار سزائیں حرف اَو کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں، جو چند چیزوں میں اختیار دینے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تقسیم کار کے لئے بھی، اسی لئے فقہاء امت صحابہ وتابعین کی ایک جماعت حرف اَو کو تخییر کے لئے قرار دے کر اس طرف گئی ہے کہ ان چار سزاؤں میں امام و امیر کو شرعاً اختیار دیا گیا ہے کہ ڈاکوؤں کی قوت و شوکت اور جرائم کی شدت و خفت پر نظر کرکے ان کے حسب حال یہ چاروں سزائیں یا ان میں سے کوئی ایک جاری کرے۔
سعید بن مسیب ؓ، عطاء ؓ داؤد رحمة اللہ علیہ، حسن بصری رحمة اللہ علیہ، ضحاک رحمة اللہ علیہ، نخغی رحمة اللہ علیہ، مجاہد رحمة اللہ علیہ، اور ائمہ اربعہ رحمة اللہ علیہم میں سے امام مالک رحمة اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، شافعی رحمة اللہ علیہ، احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور ایک جماعت صحابہ ؓ وتابعین رحمة اللہ علیہم نے حرف اَو کو اس جگہ تقسیم کار کے معنے میں لے کر آیت کا مفہوم یہ قرار دیا کہ رہزنوں اور رہزنی کے مختلف حالات پر مختلف سزائیں مقرر ہیں، اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں بروایت ابن عباس ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو بردہ اسلمی سے معاہدہ صلح کا فرمایا تھا، مگر اس نے عہد شکنی کی، اور کچھ لوگ مسلمان ہونے کے لئے مدینہ طیبہ آرہے تھے، ان پر ڈاکہ ڈالا، اس واقعہ میں جبرئیل امین یہ حکم سزا لے کر نازل ہوئے، کہ جس شخص نے کسی کو قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا اس کو سولی چڑھایا جائے، اور جس نے صرف قتل کیا مال نہیں لوٹا اس کو قتل کیا جائے، اور جس نے کوئی قتل نہیں کیا صرف مال لوٹا ہے اس کے ہاتھ پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں، اور جو ان میں سے مسلمان ہوجائے اس کا جرم معاف کردیا جائے، اور جس نے قتل و غارت گری کچھ نہیں کیا صرف لوگوں کو ڈرایا جس سے امن عامّہ مختل ہوگیا، اس کو جلاوطن کیا جائے، اگر ان لوگوں نے دار الاسلام کے کسی مسلم یا غیر مسلم شہری کو قتل کیا ہے مگر مال نہیں لوٹا تو ان کی سزا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا یعنی ان سب کو قتل کردیا جائے اگرچہ فعل قتل بلاواسطہ صرف بعض افراد سے صادر ہوا ہو، اور اگر کسی کو قتل بھی کیا مال بھی لوٹا تو ان کی سزا يُصَلَّبُوْٓا ہے، یعنی ان کو سولی چڑھایا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ ان کو زندہ سولی پر لٹکایا جائے، پھر نیزہ وغیرہ سے پیٹ چاک کیا جائے، اور اگر ان لوگوں نے صرف مال لوٹا ہے کسی کو قتل نہیں کیا تو اس کی سزا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ ہے، یعنی ان کے داہنے ہاتھ گٹوں پر سے اور بائیں پاؤں ٹخنوں پر سے کاٹ دیئے جائیں، اور اس میں بھی یہ مال لوٹنے کا عمل بلاواسطہ اگرچہ بعض سے صادر ہوا ہو، مگر سزا سب کے لئے یہی ہوگی، کیونکہ کرنے والوں نے جو کچھ کیا ہے اپنے ساتھیوں کے تعاون و امداد کے بھروسہ پر کیا ہے، اس لئے سب شریک جرم ہیں اور اگر ابھی تک قتل و غارت گری کا کوئی جرم ان سے صادر نہیں ہوا تھا کہ پہلے ہی گرفتار کر لئے گئے تو ان کی سزا اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ہے، یعنی ان کو زمین سے نکال دیا جائے۔
زمین سے نکالنے کا مفہوم ایک جماعت فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ ان کو دار الاسلام سے نکال دیا جائے، اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ جس مقام پر ڈاکہ ڈالا ہے وہاں سے نکال دیا جائے، حضرت فاروق اعظم ؓ اس قسم کے معاملات میں یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر مجرم کو یہاں سے نکال کر دوسرے شہروں میں آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہاں کے لوگوں کو ستائے گا اس لئے ایسے مجرم کو قید خانہ میں بند کردیا جائے، یہی اس کا زمین سے نکالنا ہے کہ زمین میں کہیں چل پھر نہیں سکتا، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے بھی یہی اختیار فرمایا ہے۔
رہا یہ سوال کہ اس طرح کے مسلح حملوں میں آج کل عام طور پر صرف مال کی لوٹ کھسوٹ یا قتل و خون ریزی ہی پر اکتفاء نہیں ہوتا بلکہ اکثر عورتوں کی عصمت دری اور اغوا وغیرہ کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور قرآن مجید کا جملہ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا، اس قسم کے تمام جرائم کو شامل بھی ہے تو وہ کس سزا کا مستحق ہوں گے، اس میں ظاہر یہی ہے کہ امام و امیر کو اختیار ہوگا کہ ان چاروں سزاؤں میں سے جو ان کے مناسب حال دیکھے وہ جاری کرے اور بدکاری کا شرعی ثبوت بہم پہنچے تو حدّ زنا جاری کرے۔
اسی طرح اگر صورت یہ ہو کہ نہ کسی کو قتل کیا نہ مال لوٹا، مگر کچھ لوگوں کو زخمی کردیا تو زخموں کے قصاص کا قانون نافذ کیا جائے گا (تفسیر مظہری)۔
آخر آیت میں فرمایا ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ یعنی یہ سزائے شرعی جو دنیا میں ان پر جاری کی گئی ہے، یہ تو دنیا کی رسوائی ہے اور سزا کا ایک نمونہ ہے، اور آخرت کی سزا اس سے بھی سخت اور دیرپا ہے اس سے معلوم ہوا کہ دنیاوی سزاؤ ں، حدودو قصاص یا تعزیرات سے بغیر توبہ کے آخرت کی سزا معاف نہیں ہوتی، ہاں سزا یافتہ شخص دل سے توبہ کرلے تو آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی۔
Top