Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
جو کاٹ ڈالا تم نے کجھور کا درخت یا رہنے دیا کھڑا اپنی جڑ پر سو اللہ کے حکم سے اور تاکہ رسوا کرے نافرمانوں کو
(آیت) مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ ، لفظ لینہ کجھور کے ہر درخت یا عجوہ کے علاوہ وہ باقی درختوں کے لئے بولا جاتا ہے، بنو نضیر کے باغات کجھور کے تھے جب قلعہ بند ہوگئے تو بعض صحابہ کرام نے ان لوگوں کو غیظ دلانے اور ان پر رعب ڈالنے کے لئے ان کی کھجوروں کے چند درختوں کو کاٹ کر جلا کر ختم کردیا اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے خیال کیا کہ انشاء اللہ فتح ہماری ہوگی اور یہ درخت اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ آئیں گے تو کیوں ان کو ضائع کیا جائے وہ ان کے کاٹنے جلانے سے باز رہے، یہ ایک رائے کا اختلاف تھا، بعد میں جب آپس میں گفتگو ہوئی تو جن حضرات نے کچھ درخت کاٹے یا جلائے تھے ان کو یہ فکر ہوئی کہ شاید ہم گناہ گار ہوگئے کہ جو مال مسلمانوں کو ملنے والا تھا اس کو نقصان پہنچایا، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے دونوں فریق کے عمل کو جائز و درست فرمایا اور دونوں کو باذن اللہ میں داخل کر کے حکم الٰہی کی تعمیل قرار دیا۔
رسول اللہ ﷺ کا حکم درحقیقت اللہ ہی کا حکم ہوتا ہے، منکرین حدیث کیلئے تنبیہ
اس آیت میں ان درختوں کے کاٹنے جلانے یا ان کو باقی چھوڑنے کے دونوں مختلف عملوں کو باذن اللہ فرمایا ہے، حالانکہ قرآن کی کسی آیت میں دونوں میں سے کوئی بھی حکم مذکور نہیں، ظاہر تو یہ ہے کہ دونوں حضرات نے جو عمل کیا، وہ اپنے اجتہاد سے کیا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اجازت لی ہو مگر قرآن نے اس اجازت کو جو کہ ایک حدیث تھی اذن اللہ قرار دے کر واضح کردیا کہ رسول اللہ ﷺ کو حق تعالیٰ کی طرف سے تشریع احکام کا اختیار دیا گیا ہے اور جو حکم آپ جاری فرما دیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم میں داخل ہے اس کی تعمیل قرآنی آیات کی تعمیل کی طرح فرض ہے۔
اجتہادی اختلاف کی دونوں جانبوں میں کسی کو گناہ نہیں کہہ سکتے
دوسرا اہم اصول اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ اجتہاد شرعی کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ان کا اجتہاد کسی مسئلے میں مختلف ہوجائے، ایک فریق جائز قرار دے اور دوسرا ناجائز، تو عنداللہ یہ دونوں حکم درست اور جائز ہوتے ہیں، ان میں سے کسی کو گناہ و معصیت نہیں کہہ سکتے اور اسی لئے اس پر نہی عن المنکر کا قانون جاری نہیں ہوتا کیونکہ ان میں سے کوئی جانب بھی منکر شرعی نہیں اور ولیخزی الفسقین میں درختوں کے کاٹنے یا جلانے والوں کے عمل کی توجیہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بھی فساد میں داخل نہیں بلکہ کفار کو ذلیل کرنے کے قصد سے موجب ثواب ہے۔
مسئلہبحالت جنگ کفار کے گھروں کو منہدم کرنا یا جلانا اسی طرح درختوں، کھیتوں کو برباد کرنا جائز ہے یا نہیں اس میں ائمہ فقہا کے مختلف اقوال ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ سے بحالت جنگ ان سب کاموں کا جائز ہونا منقول ہے، مگر شیخ ابن ہمام نے فرمایا کہ یہ جواز اس وقت میں ہے جبکہ اس کے بغیر کفار پر غلبہ پانا مشکل ہو، یا اس صورت میں جبکہ مسلمانوں کی فتح کا گمان غالب نہ ہو، تو یہ سب کام اس لئے جائز ہیں کہ ان سے کفار کی طاقت و شوکت کو توڑنا مقصود ہے، یا عدم فتح کی صورت میں ان کے مال کو ضائع کرنا بھی ان کی قوت کو کمزور کردینے کے لئے اس میں داخل ہے (مظہری)
Top