Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 24
اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ : کیسے كَذَبُوْا : انہوں نے جھوٹ باندھا عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں وَ : اور ضَلَّ : کھوئی گئیں عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ باتیں بناتے تھے
دیکھو کس طرح یہ اپنے اوپر جھوٹ بولنے لگے اور جو کچھ افتراء پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے کھوئی گئیں
دیکھو ان کا جھوٹ کس طرح واضح ہوگیا اور ان کا کیا کرایا اکارت گیا : 37: ” انظر “ دیکھو یہ گویا تصویر حال کے لئے ہے تاکہ مستقبل کا ایک ماجرا چشم تصور کے سامنے آئے ۔ اس طرح کہ خطاب کی شیرینی سے وہی شخص واقف ہو سکتا ہے جس کی عقل کی آنکھیں کھلی ہوں اور وہ ان سے دیکھنے کی عادت رکھتا ہو۔ فرمایا ” دیکھو یہ لوگ کس طرح اپنے اوپر جھوٹ بولنے لگے۔ “ یعنی انہوں نے اپنی ذات پر خود جھوٹی گواہی دے دی اور دنیا میں جس شرک کی حمایت میں لڑتے مرتے رہے آخرت میں پہلے ہی قدم پر قسمیں کھا کھا کر اس کا انکار کرنے لگے ۔ یہ کس بات کا نتیجہ ہوا ؟ اس بات کا کہ دنیا میں یہ لوگ اللہ کے خلاف جھوٹی گواہی دیتے رہے اور آخرت میں وہ اپنی ذات پر جھوٹی گواہی دیں گے اور جن کی حمایت میں انہوں نے دنیا میں اللہ پر جھوٹ بولا تھا جب وہی ان کے کام نہ آئے اور انہوں نے بھی ان کی سفارش نہ کی تو اس طرح انکے دنیا میں بولے ہوئے جھوٹ کی قلعی کھل گئی تو انہوں نے آخرت میں ایک نیا جھوٹ گھڑ لیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ” ہم تو ان کو شریک ٹھہراتے ہی نہیں تھے۔ “ اس جگہ جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ” وضل عنھم “ وہ سارے کے سارے جن کو وہ اپنا سفارشی ، حاجت روا اور مشکل کشا ، بگڑی بنانے والا خیال کرتے تھے وہ ان سے کھوئے گئے ۔ یعنی اس آڑے وقت ان کے کام نہ آئے اور جو امیدیں انہوں نے ان کے ساتھ وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ان کو کہیں نظر ہی نہ آئے یا انہوں نے ان کو دیکھا تک نہیں ۔ دوسرے مقامات پر قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے آیا ہے کہ وہ ان کو دیکھیں گے ۔ ان کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے باتیں کریں گے۔ ان سے جھگڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ان کو دوگنا عذاب دیئے جانے کی اپیل بھی کریں گے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ان کے کام نہ آئے اور جو امیدیں انہوں نے ان کو دلائی تھیں وہ پوری نہ کرسکے۔ ” ان سے کھوئے گئے ۔ “ یعنی ان کے کام نہ آئے کا مفہوم آپ نے یاد رکھا تو آگے چل کر کام آئے گا۔ جھوٹ بولنا نہایت بری عادت ہے ۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کے الفاظ آئے ہیں اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کا ساتھی ہے اور جھوٹ اور فجور دونوں جہنم بن جائیں گے۔ (ابن حبان) نبی اعظم و آخر ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ وہ عمل کیا ہے جس سے آدمی دوزخ میں جائے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عمل جھوٹ ہے (مسند احمد) محمد رسول اللہ ﷺ نے شب معراج میں ایک نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک شخص ہے جس کی دونوں باچھیں چیر دی جاتی ہیں لیکن وہ پھر درست ہوجاتی ہیں اور یہی عمل باربار ہو رہا ہے آپ ﷺ نے جبرئیل سے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ شخص جھوٹ بولنے والا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی اس وقت تک پورا مومن نہیں ہوتا جب تک جھوٹ کو بالکل نہ چھوڑدے یہاں تک کہ مزاح اور مزاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔ لیکن افسوس کہ کچھ لوگوں نے انبیائے کرام کے ذمہ بھی جھوٹ لگایا ہے اور ان کی تردید کی بجائے تردید کرنے والوں کو جھوٹا قرار دیا اور یہ سمجھے کہ ہم دین کا کام کر رہے ہیں۔
Top