Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 24
اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ : کیسے كَذَبُوْا : انہوں نے جھوٹ باندھا عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں وَ : اور ضَلَّ : کھوئی گئیں عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ باتیں بناتے تھے
دیکھو انہوں نے اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا اور جو کچھ یہ افتراء کیا کرتے تھے سب ان سے جاتا رہا
انظر کیف کذبوا علی انفسہم (اے مخاطب) ذرا دیکھ تو انہوں نے اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا۔ کذبوا کی ضمیر فاعل سے کیفحال ہے۔ چونکہ استفہام صدارت کو چاہتا ہے اس لئے کیف کو پہلے ذکر کیا۔ وضل عنہم ما کانوا یفترون اور جو کچھ دروغ بندیاں کرتے تھے وہ ان سے غائب ہوگئیں دروغ بندی سے مراد ہے بعض احکام کو خود حرام حلال بنانا اور اللہ کی طرف سے ان کی حرمت و حلت کی نسبت کرنا اور بتوں کو اپنا سفارشی قرار دینا۔ کلبی نے بیان کیا ایک بار ابو سفیان بن حرب ‘ ابوجہل بن ہشام ‘ ولید بن مغیرہ ‘ نضر بن حارث ‘ عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ بن ربیعہ ‘ امیہ بن خلف ‘ ابی بن خلف اور حارث بن عامر جمع ہو کر رسول اللہ ﷺ سے قرآن سننے لگے۔ ساتھیوں نے نضر سے کہا ابو قتیلہ محمد کیا کہہ رہا ہے۔ نضر نے کہا مجھے تو معلوم نہیں کیا کہہ رہا ہے۔ زبان ہلا رہا ہے اور پرانے لوگوں کی کچھ داستانیں اسی طرح کہہ رہا ہے جس طرح گزشتہ اقوام کے قصے میں تم سے بیان کرتا ہوں۔ نضر اقوام پارینہ کے قصے اور افسانے بہت زیادہ بیان کیا کرتا تھا۔ ابو سفیان بولا میرے خیال میں تو بعض باتیں سچ کہتا ہے ابوجہل بولا ہرگز نہیں ‘ تم ایسا اقرار نہ کرو بعض روایات میں آیا ہے کہ ابو جہل نے کہا اس سے تو ہمارے لئے موت آسان ہے اس لئے اللہ نے آیات ذیل نازل فرمائیں۔
Top