خلاصہ تفسیر
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (علم و حلم سے) کشادہ نہیں کردیا (یعنی علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ میں جو مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پش آتی ہے اس میں تحمل اور حلم بھی دیا کذا قال احلسن کما فی الدرالمنشور) اور ہم نے آپ پر سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ کی کمر توڑی رکھی تھی (وزر سے مراد وہ مباح اور جائز امور ہیں جو کبھی کبھی کسی حکمت و مصلحت کے پیش نظر آپ سے صادر ہوجاتے تھے اور بعد میں ان کا خلاف حکمت و خلاف اولیٰ ہونا ثبات ہوتا تھا اور آپ بوجہ علوشان وغایت قرب کے اس سے ایسے مغموم ہوتے تھے جس طرح گناہ سے کوئی مغموم ہوتا ہے، اس میں بشارت ہے ایسے امور پر مواذہ نہ ہونے کی کذا فی الدار المنشور عن مجاہد و شریح بن عبید الحضرمی پس اس بناء پر یہ بشارت آپ کو دوبارہ ہوئی، اول مکہ میں اس سورت کے ذریعہ، دوسری مدینہ میں سورة فتح میں اس کی تاکید و تکمیل اور تجدید و تفصیل کے لئے) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا (یعنی اکثر جگہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک مقرون کیا گیا، کذا فی الدار المنشور مرفوعاً قال اللہ تعالیٰ اذا ذکرت ذکرت معی یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں میرا ذکر ہوگا آپ کا ذکر بھی میرے ساتھ ہوگا (رواہ ابن جریر و ابن ابی حاتم) جیسے خطبہ میں تشہد میں نماز میں اذان میں اقامت میں اور اللہ کے نام کی رفعت اور شہرت ظاہر ہے پس جو اس کے قرین ہوگا رفعت و شہرت میں وہ بھی تابع رہے گا اور چونکہ مکہ میں آپ اور مؤمنین طرح طرح کی تکالی فو شدائد میں گرفتار تھے اس لئے آگے ان کے ازالہ کا بطریق تفریع علی السابق کے وعدہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے آپ کو روحانی راحت دی اور روحانی کلفت رفع کردی جیسا الم نشرح الخ سے معلوم ہوا) سود اس سے دنیوی راحت و محنت میں بھی ہمارے فضل و کرم کا امیدوار رہنا چاہئے چناچہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ (یعنی عنقرب ہی جو حکماً ساتھ ہونے کے معنے میں ہے) آسانی (ہونے والی) ہے (اور چونکہ ان مشکلات کے انواع و اعداد کثیر تھے اس لئے اس وعدہ کو مکرر تاکید کے لئے فرماتے ہیں کہ) بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ آسانی (ہونیوالی) ہے (چنانچہ وہ مشکلات ایک ایک کر کے سب رفع ہوگئیں جیسا روایات احادیث و سیروتواریخ اس پر متفق ہیں، آگے ان نعمتوں پر شکر کا حکم ہے کہ جب ہم نے آپ کو ایسی ایسی نعمتیں دی ہیں) تو آپ جب (تبلغی احکام سے دوسروں کی نفع رسانی کی وجہ سے عبادت ہے) فارغ ہوجایا کریں تو (دوسری عابدات متعلقہ بذات خاص میں) محنت کیا کیجئے (مراد کثرت عبادت و ریاضت ہے کہ آپ کی شان کے یہی مناسب ہے) اور (جو کچھ مانگنا ہو اس میں) اپنے رب ہی کی طرف توجہ رکھئے (یعنی اسی سے مانگئے اور اس میں بھی ایک حیثیت سے بشارت ہے۔ زوال عسر کی کہ خود درخواست کرنے کا حکم گویا درخواست پورا کرنے کا وعدہ ہے۔)
معارف و مسائل
جیسا کہ سورة ضحیٰ کے آخر میں بیان ہوچکا ہے کہ سورة ضحیٰ سے آخر قرآن تک بائیس سورتوں میں بیشتر ذکر رسول اللہ ﷺ پر انعامات الٰیہ اور آپ کی عظمت شان سے متعلق مضامین ہیں، صرف چند سورتیں احوال قیامت یا بعض دوسرے مضامین سے متعلق آئی ہیں۔ سورة انشراح میں بھی ان خاص خاص نعمتوں کا ذکر ہے جو آنحضرت ﷺ پر حق تعالیٰ نے مبذول فرمائیں اور اس کے بیان میں اسی عنوان استفہام کو اختیار فرمایا ہے جو سورة ضحیٰ میں الم یجدک الخ میں تھا فرمایا ،
الم نشرح لک صدرک شرح کے لفظی معنے کھولنے کے ہیں اور سینہ کو کھولدینا اس کو علوم و معارف اور اخلاق حسنہ کے لئے وسیع کردینے کے معنے میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ لسلام رسول اللہ ﷺ کے سینہ مبارک کو حق تعالیٰ نے علوم و معارف اور اخلاق کریمہ کے لئے ایسا وسیع بنادیا تھا کہ آپ کے علم و حکمت کو بڑے بڑے عقلاء بھی نہ پا سکے اور اسی شرح صدر کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مخلوق کی طرف توجہ کرنا حق تعالیٰ کی طرف توجہ میں مخل نہ ہوتا تھا اور بعض احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ فرشتوں نے بحکم الٰٓہی آپ کا سینہ مبارک ظاہری طور پر بھی چاک کر کے صاف کیا، بعض حضرات مفسرین نے شرح صدر سے اس جگہ وہ ہی شق صدر کا معجزہ مراد لیا ہے، کما فی ابن کثیر وغیرہ واللہ اعلم