Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 129
قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا١ؕ قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
قَالُوْٓا : وہ بولے اُوْذِيْنَا : ہم اذیت دئیے گئے مِنْ : سے قَبْلِ : قبل کہ اَنْ : کہ تَاْتِيَنَا : آپ ہم میں آتے وَ : اور مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَا جِئْتَنَا : آپ آئے ہم میں قَالَ : اس نے کہا عَسٰي : قریب ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يُّهْلِكَ : ہلاک کرے عَدُوَّكُمْ : تمہارا دشمن وَيَسْتَخْلِفَكُمْ : اور تمہیں خلیفہ بنا دے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین فَيَنْظُرَ : پھر دیکھے گا كَيْفَ : کیسے تَعْمَلُوْنَ : تم کام کرتے ہو
وہ بولے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم کو اذیتیں پہنچتی رہیں اور آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا کہ قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ تمہیں زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو
قالوا اوذینا من قبل ان تاتینا ومن بعد ما جئتنا قال عسی ربکم ان تہلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض فینظر کیف تعملون۔ انہوں نے کہا ہم تو ہمیشہ مصیبت میں ہی رہے آپ کے آنے سے پہلے بھی اور آپ کے آنے کے بعد بھی موسیٰ نے کہا بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور بجائے ان کے تم کو اس سرزمین کا مالک بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا۔ من قبل ان تاتینا یعنی آپ کے پیغمبر ہو کر آنے سے پہلے ہم کو دکھ پہنچایا گیا۔ ہمارے (نوزائیدہ) لڑکوں کو قتل کیا گیا ومن بعد ما جئتنا اور اب آپ کے آنے کے بعد بھی دوبارہ وہی اذیت ہم کو پہنچائی جا رہی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ آپ کی بعثت سے پہلے ہم سے آدھے دن بیگار لی جاتی تھی اور اب آپ کی بعثت کے بعد پورے دن بیگار لی جاتی ہے۔ کلبی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے فرعون بنی اسرائیل سے اینٹیں پاتھنے کی خدمت لیتا تھا مگر مٹی گارا فراہم کرنے کا انتظام خود کرتا تھا اور حضرت کی بعثت کے بعد حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل خود اپنے پاس سے مٹی گارے کا بھی انتظام کریں اور اینٹیں بھی پاتھیں۔ ویستخلفکم یعنی فرعون کو ہلاک کر کے ملک میں ان کی جگہ تم کو قائم کر دے فینظر کیف تعملون اور پھر دیکھے کہ تم شکر اور اطاعت کرتے ہو یا ناشکری اور معصیت۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو فتح یاب بنانے اور ان کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا لیکن اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ان کی آزمائش دونوں طرح سے کی جائے گی راحت سے بھی اور تکلیف سے بھی حصول خیر کے وقت شکر واجب ہے اور مصیبت آنے پر صبر ضروری ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے پورا کردیا فرعون کو غرق کردیا قبطیوں کے ملک اور مال و جائیداد کا مالک بنی اسرائیل کو کردیا لیکن انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں مصر پر بنی اسرائیل کا قبضہ ہوا۔
Top