Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Yunus : 3
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قائم ہوا
عَلَي الْعَرْشِ
: عرش پر
يُدَبِّرُ
: تدبیر کرتا ہے
الْاَمْرَ
: کام
مَا
: نہیں
مِنْ
: کوئی
شَفِيْعٍ
: سفارشی
اِلَّا
: مگر
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِذْنِهٖ
: اس کی اجازت
ذٰلِكُمُ
: وہ ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
فَاعْبُدُوْهُ
: پس اس کی بندگی کرو
اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
: سو کیا تم دھیان نہیں کرتے
تمہارا پروردگار تو خدا ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش (تخت شاہی) پر قائم ہوا وہی ہر ایک کام کا انتظام کرتا ہے۔ کوئی (اس کے پاس) اس کا اذن حاصل کئے بغیر (کسی کی) سفارش نہیں کرسکتا۔ یہی خدا تمہارا پروردگار ہے تو تم اسی کی عبادت کرو۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے ؟
ذکر تکوین عالم برائے اثبات ربوبیت رب اکرم قال اللہ تعالیٰ ۔ ان ربکم اللہ الذی خلق السموات۔۔ الی۔۔ افلا تذکرون۔ (ربط) اوپر قرآن کریم کی عظمت اور نبوت و رسالت کی حقانیت کا ذکر تھا اب ان آیات میں تکوین عالم کو بیان کرتے تاکہ اس سے اللہ کی معرفت اور اس کی ربوبیت کا علم حاصل ہو جو بعثت کا اولین مقصد ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا کہ تمہارا پروردگار اور تمہارا معبود وہ ذات بابرکات ہے جس نے چھ دن میں عرش سے لے کر فرش تک تمام کائنات کو پیدا کی اور یہ تمام کارخانہ اسی کی تدبیر اور حکمت سے چل رہا ہے اسی پروردگار عالم نے تمہاری ہدایت اور تربیت کے لیے ایک مرد کامل کو مبعوث کیا ہے اور اس مرد کامل پر جو کتاب بذریعہ وحی نازل ہورہی ہے وہ سحر نہیں بلکہ کیمیائے سعادت اور نسخۂ ہدایت ہے جس سے مقصود تمہاری اصلاح اور تربیت ہے پس اگر تمہارا پروردگار تمہاری تربیت اور ہدایت کے لیے کسی برگزیدہ بندہ پر وحی کے ذریعے کوئی کتاب نازل کرے تو کیوں تعجب کرتے ہو۔ اس کتاب کے نازل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اپنے پروردگار کے احکام پر عمل کریں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور یقین رکھیں کہ ایک دن ان اعمال پر جزاء سزا بھی ضرور ملنی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق تمہارا مربی اور مدبر امور وہ اللہ ہے جس نے محض اپنی قدرت سے آسمانوں کو اور زمین کو چھ دن کی مقدار میں پیدا کیا ہے اگر وہ چاہتا تو ایک لمحہ میں بنا دیتا اس نے کسی حکمت سے جتنی دیر چھ دن میں لگتی ہے اتنی دیر میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا جن سے بڑھ کر دنیا کا کوئی جسم طویل عریض نہیں تم اگر ایک معمولی مکان بنانا چاہو تو مہینے اور سال خرچ ہوجاتے ہیں اور آسمان اور زمین کو پیدا کرنا یہ اس کے کمال قدرت کی روشن دلیل ہے اور تمام عقلاء کی عقلیں اس اقتدار عظیم کو دیکھ کر حیران اور انگشت بدنداں ہیں اور کیوں نہ ہو ایسا اقتدار عظیم اندازہ فہم اور ادراک بشری سے کہیں بالا اور برتر ہے پس اگر ملیک مقتدر نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے تمہاری جنس میں سے ایک رسول تمہاری طرف بھیجدیا تو کیوں تعجب کرتے ہو اور آسمان سے زمین پر نزول وحی کا کیوں انکار کرتے ہو پھر آسمان اور زمین کی پیدائش سے بڑھ کر عجیب امر یہ ہے کہ واحکم الحاکمین اپنی شان کے مطابق عرش پر قائم ہوا۔ یعنی جلوہ فرما ہوا جو سب مخلوقات میں سب سے بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ آسمان اور زمین بھی اس کے سامنے ہیچ ہیں اور اللہ تعالیٰ کا عرش پر قائم ہونا اس بناء پر نہیں کہ وہ کسی عرش یا فرش کا محتاج ہے اس لیے کہ وہ کون ومکان اور زمین وزماں کے پیدا کرنے سے پہلے تھا۔ اسی طرح وہ مکان وزمان کے پیدا کرنے کے بعد بھی اسی شان سے موجود ہے معاذ اللہ عرش اللہ تعالیٰ کا مکان اور اس کی نشست گاہ نہیں کیونکہ جس چیز کے لیے مکان اور چھت ہو وہ متناہی اور محدود ہوتی ہے اور جو محدود ہے وہ مخلوق ہے اور اللہ پاک خالق ہے مخلوق نہیں غرض حق جل شانہ کے عرش پر قائم ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور عرش اس کا مکان ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بلا شبہ اور تمثیل کے یوں سمجھو کہ عرش عظیم بمنزلہ سریر سلطنت اور تخت شاہی کے ہے جس پر رب کریم اپنی شان کے مطابق بلا تمکن اور استقرار کے جلوہ فرما ہے اور عرش عظیم معاذ اللہ اس کا مکان نہیں بلکہ اس کی شان احکم الحاکمینی کی جلوہ گاہ ہے جہاں سے احکام خداوندی کا صدور ہوتا ہے۔ اور کائنات کے ہر امر کی بلاشرت غیرے وہ تدبیر کرتا ہے کسی سفارش کرنے والے کی مجال نہیں کہ بغیر اس کی اجات کے سفارش کا کوئی حرف اپنی زبان سے نکال سکے۔ پس جو ذات اس خلق اور تقدیر اور تدبیر اور عظمت اور حکمت کے ساتھ موصوف ہے وہی اللہ ہے جو تمہارا پروردگار ہے اور تم کو معلوم ہے کہ ان صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو پھر کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے یا اپنے دل میں فکر نہیں کرتے کہ عبادت اسی ذات کا حق ہے جو اس قدرت اور حکمت اور عظمت کے ساتھ موصوف ہو یا یہ مطلب ہے کہ تم اس کے دلائل وحدانیت میں غور نہیں کرتے کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق وتکوین میں اور اسکی تدبیر اور تصرف میں مستقل ہے وہ کسی کے اذن کا محتاج نہیں۔ معلوم ہوا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکین کا یہ زعم کہ بت خدا کے یہاں ہماری شفاعت کریں گے یہ ان کا خیال خام ہے۔ لطائف ومعارف 1 ۔ حق جل شانہ نے ان آیات میں عالم علوی اور عالم سفلی کی تخلیق وتکوین کو بیان کیا تاکہ تم کو صانع عالم کی معرفت حاصل ہو اس لیے کہ آسمان و زمین کا اجسام عظیمہ ہونا اور بیشمار اجزاء سے انکا مرکب ہونا اور مختلف صفات اور مختلف حالات اور مختلف کیفیات کے ساتھ ان کا موصوف ہونا اور قسم قسم کے تغیرات اور انقلابات ان میں واقع ہونا یہ سب اس امر کی دلیل ہے کہ اجرام علویہ و اجسام سفلیہ کی یہ حرکات و سکنات خود ان کے اختیار میں نہیں اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مادہ اس کے ذرات بسیطہ کی حرکت قدیم ان تغیرات اور تنوعات کی علت ہے اس لیے کہ باتفاق فلاسۂ جدید وقدیم مادہ میں نہ کوئی ادراک اور شعور ہے اور نہ کسی قسم کا ارادہ اور اختیار ہے۔ مادہ میں یہ قدرت نہیں کہ وہ کسی جسم کو حرکت دے سکے یا کسی کو کب اور سیارہ کی حرکت کی جہت اور سمت کو بدل سکے یا اس کی روشنی میں کوئی کمی اور زیادتی کرسکے یا ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھر سکے پس جس مادہ کی مجبوری اور لاچارگی اور درماندگی کا یہ حال ہے کہ اپنی ذات سے وہ اندھا اور گونگا اور بہرا اور ایک اپاہج سب کچھ ہے و ان اجرام علیہ اور اجسام سفلیہ کے تغیرات اور انتقالات کی علت کیسے ہوسکتا ہے معلوم ہوا کہ یہ کون ومکان اور زمین و آسمان کسی قادر حکیم اور صناع علیم کی صنعت کا کرشمہ ہیں۔ اور سب اس کی تدبیر محکم کے تابع ہیں کہ وہ اپنی حکمت کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے۔ مادہ عالم کے ذرات بسیط ملکر کتنی ہی کانفرنسیں کریں اور کتنی ہی کیٹیاں بنائیں اور زمین آسمان کے قلابے بھی ملائیں مگر یہ دریافت کرنے سے عاجز اور درماندہ ہیں کہ یہ کارخانہ عالم کس طرح چل رہا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام کائنات اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن بھی ہیں اور حادث بھی ہیں۔ عدم کے بعد وجود میں آئی ہیں اور ہر لمحہ اور ہر لحظہ اس کا امکان ہے کہ یہ ذات یا یہ صفت معدوم ہوجائے یا اس میں کوئی تغیر اور تبدل ہوجائے اور عقلا یہ امر بدیہی ہے کہ کوئی ممکن اور حادث بغیر واجب قدیم کے سہارے کے قائم نہیں رہ سکتا۔ پس یہ تمام ممکنات خداوند حی وقیوم کے سہارے قائم ہیں خوب سمجھ کہ کائنات عالم کا امکان ذاتی اور امکان صفاتی اور حدوث ذاتی اور حدوث صفاتی ان میں سے ہر ایک وجود صانع کی دلیل قطعی ہے اس اجمال کی تفصیل کے لیے امام رازی کی تفسیر کبیر دیکھیں۔ جزاہ اللہ تعالیٰ عن الاسلام والمسملین خیرا۔ آمین۔ 2 ۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں اس لیے پیدا کیا تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر چیز کی ایک مدت مقرر ہے اور تاکہ وقتا فوقتا اللہ کی قدرت کے کرشمے ظاہر ہوں اور کل یوم ھو فی شان کا جلوہ نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ انسان کو ایک لمحہ میں پیدا کردے مگر اس نے انسان کی پیدائش کے لیے مدت مقرر کردی ہے جن میں اس کی حکمتیں ہیں جن کا علم سوائے اس کے کسی کو نہیں اسی طرح آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کرنے کو سمجھو اہل ظاہر اور حشویہ استوی علی العرش کے یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور وہیں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کا انتظام کر رہا ہے۔ (دیکھو تفسیر وحیدی صفحہ 207) اہل حق یہ کہتے ہیں کہ کتاب وسنت میں حق جل شانہ کے لیے جو صفات وافعال ثابت کیے گئے ہیں۔ ہم ان پر بلا تشبیہ و تمثیل کے اور بلا جمود اور بلا تعطیل کے ایمان لاتے ہیں اور حسب ارشاد باری تعالیٰ لیس کمثلہ شیئ اور لم یکن لہ کفوا احد۔ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ کو نہ کوئی مکان گھیرے ہوئے۔ اور نہ کوئی زمانہ اس پر گزرتا ہے اور نہ اس کے لیے کوئی ھد ہے اور نہ نہایت اور نہ اس کے لیے کوئی جہت اور سمت ہے اس کی ذات بابرکت۔ مخلوقات کی مشابہت اور مماثلت سے پاک اور منزہ ہے اس بنا پر اہل حق یہ کہتے ہیں کہ استوی علی العرش سے معاذ اللہ یہ مراد نہیں کہ خداوند ذوالجلال۔ بادشاہوں کی طرح تخت سلطنت پر بیٹھا ہوا ہے۔ بلکہ یہ کلام خداوند ذوالجلال والاکرام کی حکمرانی سے کنایہ 1 ہے چونکہ سلاطین عالم۔ عرش (تخت) پر بیٹھ کر حکمرانی کرتے ہیں اس لیے سمجھانے کے لیے اللہ کی حکومت اور حکمرانی کو استوی علی العرش سے تعبیر کردیا گیا اہل عرب اپنے محاورات میں بولتے۔ فلان استوی علی العرش یعنی فلاں اپنے عرش (یعنی سریر سلطنت) پر متمکن ہوگیا اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں کو سلطنت حاصل ہوگئی اسی طرح اس آیت میں سمجھو کہ استوی علی اعرش سے تمکن اور استقرار اور بیٹھنے کے معنی مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسمان اور زمین کو اور کائنات عالم کو پیدا کیا اور پیدا کرنے کے بعد سریر سلطنت پر قائم ہوا اور مخلوقات پر حکمرانی کرنے لگا کیونکہ حکمرانی کے لیے محکوم چاہئے۔ اس لیے اس احکم الحاکمین نے اپنی قدرت ازلیہ سے اول محکوم کو پیدا کیا اور پھر حکمرانی اور تدبیر کرنے لگا۔ اس کی حاکمیت اور مالکیت اور رزاقیت وغیرہ وغیرہ قدیم اور ازلی ہے مخلوقات کو اس لیے پیدا کیا کہ اس کی صفات کمالیہ کا ظہور ہو۔ جود محتاج گدایاں چوں گدا آب می گوید کہ ای طالب بیا یہ قفال مروزی کا قول ہے جس کا امام رازی نے تفسیر کبیر میں ذکر کیا ہے اور سورة اعراف میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے غرض یہ کہ استوی علی العرش سے ظاہری اور حسی معنی یعنی تخت پر بیٹھنا مراد نہیں بلکہ حکمرانی اور تدبیر سے کنایہ ہے۔ اور چونکہ عرش آسمانوں اور زمینوں کو محیط ہے اس لیے حکمرانی سے کنایہ کے لیے استواء کے ساتھ علی العرش کا لفظ ذکر کیا۔ امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ استواء سے اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص فعل مراد ہے جو اس نے عرش میں کیا۔ اور صوفیائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ استواء سے اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص تجلی مراد ہے اور امام ابوبکر بن فورک کہتے ہیں کہ استواء سے علو اور رفعت کے معنی مراد ہیں اور امام بخاری نے بھی اسی معنی کو اختیار فرمایا ہے۔ باقی اس آیت کی مفصل تفسیر سورة اعراف میں گزر چکی ہے وہاں دوبارہ دیکھ لی جائے۔ لفظ ثم کلام عرب میں متعدد معنی کے لیے آتا ہے۔ اول : تراخئ رتبہ بیان کرنے کے لیے جیسے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا۔ یعنی استقامت کا مرتبہ ربنا اللہ کہنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دوم : بمعنی قبل جیسے ثم استوی علی العرش معناہ قبل ذلک استوی علی العرش کیونکہ حق تعالیٰ کا یہ قول وکان عرشہ علی الماء اس پر دلالت کرتا ہے کہ عرش کا وجود آسمان و زمین کی پیدائش سے مقدم ہے۔ سوم : بمعنی واؤ۔ جیسے ثم کان من الذین امنوا ومعناہ ومع ذلک کان من الذین امنوا۔ چہارم : بمعنی ابتداء واستیناف جیسے الم نھلک الاولین ثم نتبعھم الاخرین۔ معناہ نحن نتبعھم۔ پنجم : بمعنی تعجب جیسے الحمد للہ الذی خلق السموات والارض وجعل الظلمات والنور۔ ثم الذین کفروا بربھم یعدلون۔ معناہ تعجبوا منھم کیف یکفرون بربھم اور آیت ہذ یعنی ثم استوی علی العرش۔ میں لفظ ثم تفخیم شان کے لیے یعنی عرش کا مرتبہ آسمان و زمین سے بڑھ کر ہے پس لفظ ثم اس جگہ تراخی رتبہ کے لیے ہے نہ کہ تراخی وقت کے لیے۔ 5 ۔ اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ تمام کائنات عالم قادر مختار اور صانع کردگار کی صنعت ہیں فلاسفہ اور دھریین کہتے ہیں کہ یہ سب اقتضاء طبیعت ہے۔ جواب : یہ ہے کہ اگر طبیعت کا وجود تسلیم کرلیا جائے تو ہم یہ کہیں گے کہ طبیعت سے جو شیئ حاصل اور موجود ہوتی وہ بقدر حاجت اور بقدر ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بقدر طاقت اور قوت ہوتی ہے۔ آگ جس چیز کو جلاتی ہے وہ اپنی قوت اور طاقت کے بمقدار جلاتی ہے نہ بمقدار ضرورت و حاجت۔ عاقل اور دانا کا کام ہے کہ آگ کو بقدر ضرور استعمال کرے۔ پانی اپنی طاقت اور قوت کے بمقدار بہے گا اور بہائے گا اور حکیم اور دانا پانی کو بقدر ضرورت اور بقدر ھاجت استعمال کرے گا۔ عمارت کی بلندی پانی اور قلعی اور چونہ کی طبیعت پر موقوف نہیں بلکہ معمار کے اختیار اور اس کے تصر پر موقوف ہے اور اس کی مصلحت کے تابع ہے اسی طرح سمجھو کہ اس سرائے فانی کی تمام عمارت اس کے بنانے والے کی قدرت اور اختیار اور اس کی حکمت اور مصلحت کے تابع ہے اس میں آسمان و زمین کی طبعت اور مزاج کو دخل نہیں۔
Top