Mualim-ul-Irfan - Yunus : 3
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قائم ہوا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر يُدَبِّرُ : تدبیر کرتا ہے الْاَمْرَ : کام مَا : نہیں مِنْ : کوئی شَفِيْعٍ : سفارشی اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِذْنِهٖ : اس کی اجازت ذٰلِكُمُ : وہ ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : پس اس کی بندگی کرو اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : سو کیا تم دھیان نہیں کرتے
بیشک تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو چھ دن کے وقفے میں۔ پھر وہ مستوی ہوا عرش پر تدبیر کرتا ہے معاملے کی۔ نہیں ہے کوئی سفارشی مگر اس کی اجازت کے بعد۔ یہی ہے اللہ تمہارا پروردگار ، پس اسی کی عبادت کرو۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے
ربط آیات : اس سورة کی پہلی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا ذکر کیا۔ فرمایا یہ کتاب وحی الٰہی کے ذریعے نازل ہوئی اور یہ علم و حکمت کا خزینہ ہے۔ پھر دوسری آیت میں رسالت کے متعلق فرمایا کہ یہ نافرمان لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ ہم نے ایک مرد کی طرف وحی بھیجی ہے جس کا مقصد ایمان سے بےبہرہ لوگوں کو ڈرانا اور اہل ایمان کو خوشخبری سنانا ہے۔ گر کافر لوگ جب اس دعوت کا کوئی معقول جواب نہ دے سکے تو کہنے لگے یہ تو کھلا جادوگر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس لغو اعتراض کا رد فرمایا اور نہایت لطیف پیرایہ میں معاد کا ذکر بھی فرمایا کہ ایمان والوں کے لیے ان کے رب کے ہاں سچائی کا پایہ ہے اور وہ آخرت میں کامران وکامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ کتنی غلط بات نہیں جو سمجھ میں نہ آتی ہو۔ یہ ان کا محض تعصب اور عناد ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے انکار کر رہے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بعثت انبیاء اس ذات کا کام ہے جس نے تمام کائنات کو پیدا فرمایا ہے۔ اب آج کی آیات میں پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں اور پھر اس کی وحدانیت کا ذکر کر کے اس کی توحید کا مسئلہ سمجھایا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی عبادت کا حکم بھی دیا ہے۔ دراصل رسول جس بات کو بیان کرتا ہے وہ اللہ کی وحدانیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عظیم کاموں میں سے ایک کام بعثت انبیاء بھی ہے جیسا کہ سورة کہف میں فرمایا (آیت) ” ومانرسل المرسلین الامبشرین ومنذرین “ ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے مگر اس لیے کہ وہ بشیر ونذیر ہوں۔ گویا بعثت انبیاء اللہ کی صفت ہے اور جو اس صفت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ صفت ربوبیت ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض “ بیشک تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا یہاں پر سب سے پہلے ربوبیت کی صفت کا تذکرہ کر کے الوہیت کا مسئلہ سمجھایا گیا ہے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک کی ابتداء بھی صفت ربوبیت سے ہوئی ہے (آیت) ” الحمد للہ رب العلمین “ اور اس کی انتہا میںٰ یہی صفت ہے (آیت) ” قل اعوذ برب الفلق “ اور (آیت) ” قل اعوذ برب الناس “ ربوبیت کا مطلب کسی چیز کو بتدریج درجہ کمال تک پہنچانا ہوتا ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کی سوا کسی دوسری ذات میں نہیں پائی جاتی۔ اسی لیے فرمایا کہ تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (آیت) ” فی ستۃ ایام “ چھ دنوں کے وقفے میں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہاں پر چھ دن سے مراد اس دنیا کے چھ دن نہیں بلکہ یہاں پر دن سے مراد وہ دن ہے جو اللہ کے ہاں شمار ہوتا ہے۔ اس کو آخرت کا دن بھی کہہ سکتے ہیں اور اس دن کے متعلق سورة حج میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون “ تمہارے پروردگار کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے تو اس طرح گویا خدا تعالیٰ ارض وسما کو چھ ہزار سال کے وقفے میں پیدا کیا۔ اس کی قدرت تامہ اور حکمت تو ایسی ہے کہ وہ یکدم بھی ہر چیز کو پیدا کرسکتا ہے۔ مگر اس نے انسان کو سمجھانے کی مصلحت کے تحت تدریج اختیار کی اور اس کام کے لیے چھ دن کا وقفہ لیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے ” التئودۃ من الرحمن والعجلۃ من الشیطن “ یعنی آہستگی رحمان کی صفت ہے جب کہ جلد بازی شیطانی فعل ہے۔ بہر حال پہلے اللہ کی صفت ربوبیت کا ذکر ہوا۔ اس کے بعد صفت خلق کا اور آگے صفت الوہیت کا ذکر ہوگا۔ استوی علی العرش آسمان و زمین کو چھ دن کے وقفہ میں پیدا کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ” ثم استوی علی العرش “ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا۔ استوی کا معنی قائم ہونا ، قرار پکڑنا یا کسی دوسری چیز کے ساتھ برابر ہونا آتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ” استوی علی الدآبۃ “ فلاں شخص سواری پر قائم ہوگیا ، قرار پکڑ گیا۔ استوی کا معنی ارادہ کرنا بھی آتا ہے جیسے (آیت) ” ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموت “ (البقرہ) پھر اس نے آسمانوں کی طرف ارادہ فرمایا اور انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا۔ اسی طرح استوی کا معنی غالب آنا بھی ہے۔ جیسے شاعر کہتا ہے۔ استوی بشر علی العراق من غیر مادم مھراق (بشر عراق پر قابض ہوگیا۔ غالب آگیا بغیر خونریزی کے) تو اس مقام پر بھی استوی علی العرش کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی یعنی غالب ہے۔ اور عرش ایسی چیز ہے جو ساری مخلوق میں بلند ترین ہے۔ ساتوں آسمانوں کے بعد بہشت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جس کا بلند ترین درجہ جنت الفردوس ہے جس کے اوپر عرش الٰہی کا سایہ ہے مطلب یہ ہے کہ سب سے بلند ترین چیز عرش پر جب اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہے تو باقی چیزیں تو بطریق اولیٰ اس کے تسلط میں ہیں۔ استوی علی العرش سے یہی بات سمجھانا مقصود ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) کا فلسفہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی اصطلاح کے مطابق عرش تمام شخص اکبر کا قلب ہے ، اور اس پر مستوی ہونے کی کیفیت ایسی نہیں ہے جیسے ہم تخت ، چارپائی یا کرسی وغیرہ پر بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے استوی کو بھی ہم اپنے اوپر محمول کریں تو پھر خدا تعالیٰ کی جہت لازم آئیگی اور اس کا طورل عرض بنے گا حالانکہ ذات خداوندی ، جہت ، زمان اور مکان سے منزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں مگر ہماری طرح نہیں بلکہ جیسا اس کی شان کے لائق ہے ، اس کی پنڈلی ہے مگر اپنی شان کے مطابق ، چہرہ ہے مگر مخلوق کی طرح نہیں بلکہ جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ اسی لیے امام مالک رح ، امام ترمذی رح ، سفیان ثوری رح ، امام ابوحنیفہ (رح) عبداللہ بن مبارک (رح) ، وغیرہم فرماتے ہیں کہ استوی علی العرش کے الفاظ کو ظاہر رکھتے ہوئے اس کی کیفیت کو خدا تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہیے کہ وہ عرش عظیم پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ایک شخص نے امام مالک (رح) سے استوی علی العرش کی کیفیت کے مطابق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ” الاستوآء معلوم والکیف مجھول “ یعنی استوی کا ظاہری معنی تو معلوم ہے کہ قائم ہونا یا غالب ہونا ہے مگر اس کی کیفیت معلوم نہیں۔ ہمارے لیے صرف ایمان لانا ہی واجب ہے۔ کیفیت کے متعلق کرید کرنا درست نہیں بلکہ بدعت ہے۔ آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق یہی خیال کرتا ہوں کہ تم بدعتی آدمی ہو ، لہٰذا میری مجلس سے اٹھ جائو۔ بہرحال نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے استوی کا معنی معلوم ہے مگر اس کی کیفیت کا علم نہیں ۔ وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستوی ہے ، ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اس بات کو آسان طریقے سے اس طرح فرماتے ہیں کہ عرش پر خدا تعالیٰ کی تجلی اعظم پڑتی ہے جو سارے عرش کو رنگین کردیتی ہے پھر عرش سے نیچے کی چیزیں بھی اس تجلی سے متاثر ہوتی ہیں اور پھر تمام کائنات اس کا اثر قبول کرتی ہے اور اس طرح تجلی اعظم کا اثر تمام کائنات پر پڑتا ہے۔ تدبیر امر۔ اللہ تعالیٰ کے استوی علی العرش کے ذکر کے بعد فرمایا (آیت) ” یدبر الامر ‘ ‘ وہ معاملے کی تدبیر کرتا ۔ سورة الٓم “ سجدہ میں ہے (آیت) ” یدبر الامر من السمآء الی الارض “ وہ بلندیوں سے پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر کتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر شے کا تدبیر کنند ہ صرف خدا تعالیٰ ہے۔ مگر مشرک لوگ اس مسئلہ میں بھی بہک جاتے ہیں اور شرک کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود اور خالق ہونے میں تمام مشرک بھی متفق ہیں کہ واجب الوجود بھی وہی خدا ہے اور ہر چیز کا مالک بھی وہی ہے مگر جب تدبیر کی صفت آتی ہے تو پھر اس میں غیر اللہ کو بھی شریک کرلیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمارے معبود بھی ہیں جو ہماری مرادیں پوری کرتے ہیں اور ہماری سفارشیں کرتے ہیں۔ البتہ جو مخلص مومن ہیں وہ تدبیر کو اللہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں کہ ذرے ذرے تک کی تدبیر صرف ذات باری تعالیٰ ہی کرتی ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی چار صفات درجہ بدرجہ کام کرتی ہیں۔ سب سے پہلے صفت ابداع کا اظہار ہوتا ہے جیسے فرمایا (آیت) ” بدیع السموت والارض “ یا فرمایا (آیت) ” فاطر السموت والارض “ یعنی آسمانوں اور زمین کا بغیر آے اور مادے کے پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے استعمال کیے بغیر ایجاد کردینا خاصہ خداوندی ہے۔ یہ صفت ابداع ہے۔ پھر دوسرے نمبر پر صفت خلق آتی ہے۔ خلق کا معنی بھی پیدا کرنا ہے مگر کسی دوسرے مادے یا آلے کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کے مادے سے اور جنات کو آگے کے مادے سے پیدا فرمایا یہ اس کی صفت خلق کا ظہور ہے۔ جب بعض چیزیں معرج وجود میں آجاتی ہیں تو پھر ان میں توازن قائم کرنے کے لیے ، کسی کو گھٹانے کے لیے اور کسی کو بڑھانے کے لیے ، کسی کو زندگی بخشنے کے لیے یا کسی پر موت طاری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت تدبیر کام کرتی ہے۔ چناچہ ہر ذرے ذرے کی تدبیر خدا تعالیٰ براہ راست کرتا ہے۔ جو اس صفت میں کسی کو شریک کرتا ہے ، وہ بھی مشرک بن جاتا ہے اور پھر چوتھی صفت تدلی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا تجلی اعظم کا عکس اس کے قلب پر بھی پڑتا ہے۔ لیکن یہ کئی واسطوں کے ذریعے آتا ہے۔ تجلی اعظم کا اثر عرش الٰہی پر پڑتا ہے۔ نیچے امام نوع انسان ہوتا ہے ، اس کے قلب پر پڑتا ہے اور پھر اس کے واسطے سے وہ اثر روح انسانی پر پڑتا ہے روح انسان میں بڑے بڑے مرکز ہوتے ہیں جن کے ذریعے تجلی اعظم کا اثر ہر انسانی قلب پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد انسانی ذہن بہت تیز ہوجائیگا۔ اگر اس نے دنیا میں ایمان قبول نہیں کیا تو اس کو بڑا افسوس ہوگا کہ وہ ایمان سے کیوں محروم رہا۔ اس کے قلب پر پڑنے والی تجلی اسے ستائیگی اور ملامت کرے گی کہ دنیا میں رہ کر تم نے کیا کیا ؟ ابتداء ہی سے ہر انسان کے قلب میں خدا شناسی کا بیج بویا ہوا ہے جو کہ تجلی اعظم کے ذریعے سے آتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ معاملے کی تدبیر کرتا ہے اور صفت تدبیر بھی اسی کے ساتھ خاص ہے۔ مسئلہ شفاعت فرمایا (آیت) ” ما من شفیع الا من بعد اذنہ “ کوئی سفارشی نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد۔ یہود ونصاری اور مشرکین نے سفارشی بنا رکھے ہیں جن کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ خدا راضی ہو یا ناراض یہ سفارشی ہمارا کام ضرور کروا دیں گے۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کی سفارشی نہیں کرسکے گا (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “ (البقرہ) میں بھی یہی بات ہے اللہ کے نبی اور حضور خاتم النبین ﷺ بھی سفارش کریں گے تو اللہ کی اجازت سے۔ اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو سفارش کا حق نہیں پہنچتا یہ جبری سفارش والا عقیدہ تو مشرکین کا ہے۔ اور صحیح سفارش بھی ان لوگوں کے حق میں ہوگی جن کے دل نور توحید سے روشن ہوں گے۔ ان کے لیے انبیائ ، شہداء اور نیک لوگ سفارش کریں گے۔ جو لوگ نور ایمان سے خالی ہوں گے ان کے لیے قطعا سفارش نہیں ہو سکے گی۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کی سفارش نہیں کرسکتا۔ ۔۔۔ فرمایا ، یاد درکھو ! (آیت) ” ذلکم اللہ ربکم “ یہی ہے تمہارا رب ، جو خالق اور مدبر ہے ، وہ ذرے ذرے کا مالک ہے (آیت) ” فاعبدوہ “ لہٰذا عبادت بھی صرف اسی کی کرو۔ اللہ کا نبی بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ عبادت صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک کی کرو۔ فرمایا (آیت) ” افلا تفکرون “ کیا تم دھیان نہیں کرتے ؟ نصیحت نہیں پکڑتے ؟ اللہ کا نبی تمہیں واضح بتاتا ہے۔ اللہ کی کتاب تمہاری راہنمائی کرتی ہے۔۔ نشاناتِ قدرت تمہیں پکار پکار کر توحید کی دعوت دے رہے ہیں مگر تم اول فول باتیں کر رہے ہو۔ کبھی اللہ کے سچے نبی کو نبی ماننے سے انکار کرتے ہو اور اسے جادوگر کا لقب دیتے ہو اور کبھی کتاب الٰہی کا انکار کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے نیز یہ ہمارے سفارشی ہماری مرادیں پوری کرنے والے ہیں ہم ان کی پرستش ضرور کریں گے یا یہ ہمیں ضرور ہی چھڑا لیں گے۔ بہرحال فرمایا کہ رب وہ ہے جس کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ خالق اور مدبر ہے۔ لہٰذا عبادت بھی اسی کی کرو۔ اللہ کا قانون یہی ہے۔ وقوع قیامت آگے اللہ تعالیٰ نے معاد کا ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کی صداقت ، رسول کی رسالت اور وقوع قیامت آپس میں مربوط چیزیں ہیں کیونکہ اس دنیا میں کتب سماویہ اور انبیائے کرام پر ایمان لانے یا نہ لانے کا بدلہ تو قیامت کو ہی ملے گا۔ تو فرمایا ، لوگو ! یاد رکھو ! اس دنیا میں تم جو چاہوکر لو ، غلط سلط عقائد وضع کرلو ، اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرلو۔ مگر (آیت) ” الیہ مرجعکم جمیعا “ بالآخر تم سب کو اسی اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے (آیت) ” وعد اللہ حقا “ یہ اللہ پاک کا سچا وعدہ ہے اور اس میں کوی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ ہر شخص نے اپنے رب تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال و عقائد کی جوابدہی کرنا ہے۔ فرمایا۔ ذرا اس بات پر غور کرو (آیت) ” انہ یبدئو الخلق “ بیشک ابتداء میں پیدا کرنے والا وہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کائنات کی تمام چیزیں وہ کس طرح پیدا کرتا ہے (آیت) ” ثم یعیدہ “ پھر وہ اس کو دوبارہ لوٹائے گا۔ مرنے کے بعد وہ پھر زندہ کر کے اپنے سامنے کھڑا کرلے گا۔ اور اس سے پوری زندگی کا حساب لے گا۔ فرمایا دوبارہ لوٹانے کا مقصد یہ ہے (آیت) ” لیجزی الذین امنوا وعملوالصلحت بالقسط “ تا کہ ایمان لانے والوں اور اچھے عمل کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ پورا پورا بدلہ ملے۔ اچھے اور برے اعمال کی جزا یا سزا اس دنیا میں بھی کسی حد تک ملتی ہے مگر مکمل طور پر نہیں ، لہٰذا نیکی کی مکمل جزا اور برائی کی سزا تو آخرت میں ہی ملیگی جب ہر چیز کھل کر سامنے آجائے گی اور کوئی شخص اپنے کسی کام کا انکار نہیں کرسکے گا۔ اس دنیا میں تو بعض چیزیں پردہ میں بھی رہ جاتی ہیں اور اس دنیا کی عدالتوں سے غلطی بھی سرزد ہو سکتی ہے مگر مالک الملک کی عدالت میں ہر چیز نکھر کر سامنے آجائے گی اور نہ کوئی دھوکا دے سکیگا ، نہ کوئی چیز پوشیدہ رہ سکے گی اور نہ کوئی وکیل جھوٹ موٹ ملاکر کسی کو چھڑا سکے گا۔ وہاں ہر عمل کا پورا پورابدلہ مل کر رہے گا۔ فرمایا اسی مقصد کی تکمیل کے لیے قیامت کا آنا برحق ہے اور یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ کفار کا انجام اس کے برخلاف کفار کے انجام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ (آیت) ” والذین کفروا “ جن لوگوں نے کفر کیا ، اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں اور قیامت کے دن کا انکار کیا (آیت) ” لھم شراب من حمیم “ پیاس کے وقت ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ جب کافر لوگ اس پانی کو حلق سے نیچے اتاریں گے تو وہ ان کی آنتوں کا کاٹ کر باہر پھینک دے گا ، اتنا گرم ہوگا۔ اس کے علاوہ فرمایا (آیت) ” و عذاب الیم “ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ انہیں نہایت تکلیف دہ سزا ملے گی کیوں ؟ (آیت) ” بما کانوا یکفرون “ اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔ بلا وجہ کسی کو سزا نہیں دی جاتی۔ اللہ نے فرمایا کہ کافروں کو کھولتا ہوا پانی اور دردناک سزا ان کے کفر کی وجہ سے دی جائیگی۔ ان کے پاس ہمارے رسول آئے کتابیں آئیں ، ان کو توحید کی دعوت دی گئی ، شرک سے منع کیا گیا ، اچھے اعمال کی طرف راغب کیا گیا اور اس کے لیے انہیں خوشخبری سنائی گئی۔ ساتھ ساتھ برے افعال کے انجام سے ڈرایا گیا مگر ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے اللہ کی وحدانیت اور انبیاء کی رسالت کا انکار کیا۔ قرآن پاک کی صداقت وحقانیت کو تسلیم نہ کیا۔ لہٰذا جب لوگ اس مالک الملک کی طرف لوٹائے جائیں گے تو پھر سخت سزا میں مبتلا ہوں گے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات خلق اور تدبیر کا ذکر کیا ہے۔ سفارش کا مسئلہ سمجھایا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کا درس دیا ہے۔ اور آخر اہل ایمان اور کفار کی جزا اور سزا کا ذکر فرما کر ان کے انجام سے بھی آگاہ کردیا ہے۔
Top