Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Yunus : 3
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قائم ہوا
عَلَي الْعَرْشِ
: عرش پر
يُدَبِّرُ
: تدبیر کرتا ہے
الْاَمْرَ
: کام
مَا
: نہیں
مِنْ
: کوئی
شَفِيْعٍ
: سفارشی
اِلَّا
: مگر
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِذْنِهٖ
: اس کی اجازت
ذٰلِكُمُ
: وہ ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
فَاعْبُدُوْهُ
: پس اس کی بندگی کرو
اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
: سو کیا تم دھیان نہیں کرتے
تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں (یعنی چھ معین زمانوں میں) پیدا کیا پھر اپنے تخت پر متمکن ہوگیا ، وہی تمام کاموں کا بندوبست کر رہا ہے اس کے حضور کوئی سفارش نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ خود اجازت دے دے ، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اس کی بندگی کرو کیا تم غور و فکر سے کام نہیں لیتے ؟
تمہارا رب وہی ہے جس نے زمین و آسمان اور اس کی ہرچیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا 4 ؎ اس جگہ غور طلب بات یہ ہے کہ آسمان و زمین کی چھ ایام میں خلقت سے مقصود کیا ہے ؟ ایام ، یوم کی جمع ہے اور عام طور پر صبح سے لے کر شام تک کے وقت کو یوم کہا جاتا ہے لکنن اس جگہ اسوقت کا ذکر ہو رہا ہے جب کہ نہ سورج تھا اور نہ ہی صبح و شام کا کوئی وجود ۔ اس لئے آیت کریمہ میں یوم سے مراد وہ دن تو ہو نہیں سکتا جس کا ابھی ہی موجود نہ تھا۔ ہاں ! اس سے مراد مطلق وقت ہی ہو سکتا ہے اور لفظ یوم کا اطلاق اس معنی میں عموماً ہوتا رہتا ہے ۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس آیت میں ” یوم “ سے مراد وقت کی وہ مقدار ہے جو ہمارے ہزار سال کے برابر ہے۔ ( مفرادت امام راغب) اور یہی آیت اس سے قبل سورة الاعراف آیت 54 میں بھی گزر چکی ہے اس لئے وہاں سے بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ہم چاہتے ہیں کہ وہ تمام اشارات جمع کردیئے جائیں جو آسمان و زمین کی ابتدائی کے پیدائش کے بارے میں جا بجا کئے گئے ہیں اور قرآن کریم نے مختلف جگہ پر ان کو بیان کیا ہے۔ فرمایا : 1۔ آسمان و زمین کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی ہے جسے قرآن کریم میں ’ ’ دخاق “ کے لفظ سے تعبیر کیا۔ ثم استویٰ الی السماء وھی دخان ( دخان 41 : 11) ” دخان “ کے معنی دھوئیں یا ایسی بھاپ کے ہیں جو اوپر کو چڑھی ہوئی ہو اور اس کے باعث اوپر کچھ دکھائی نہ دے۔ 2۔ یہ مادہ دخانیہ ابتداء ً آپس میں ملا ہوا تھا الگ الگ نہ تھا پھر اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے جدا کردیئے گئے اور ان سے احرام سماویہ کی پیدائش ظہور میں آئی جیسا کہ ارشاد فرمایا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا (21 : 30) 3۔ یہ تمام کائنات بیک دفعہ ظہور میں نہیں آگئی بلکہ تخلیق کے مختلف دور یکے بعد دیگرے طاری ہوئے۔ یہ دور چھ تھے جیسا کہ آیت زیر بحث سے معلوم ہوتا ہے۔ 4۔ سات ستاروں کی تکمیل دو دوروں میں ہوئی جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَـہٗٓ اَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰـلَمِیْنَ (41 : 9) 6۔ زمین کی سطح کی درستگی اور پہاڑوں کی نمود اور قوت نشو ونما کی تکمیل بھی دو دوروں میں ہوئی اور اس طرح یہ چار دور ہوئے فرمایا : وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبٰـرَکَ فِیْھَا وَقَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍط سَوَآئً لِّلسَّآئِلِیْنَ (41 : 10) 7۔ یہ تمام اجسام حیہ یعنی نباتات و حیوانات کی پیدائش پانی سے ہوئی جیسا کہ فرمایا وجعلنا من الماء کمل شی حی (21 : 30) 8۔ انسان کے باوجود پر بھی یکے بعد دیگرے مختلف حالتیں گزری ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا وقد خلقکم اطوارا (71 : 14) ان آیات کریمات کو ان کے اصل مقامات سے دیکھ لو انشاء اللہ بہت کچھ ملے گا اور ہم انشاء اللہ ان کے اصل مقامات پر اپنی تفہیم عرض کریں گے۔ اسوقت مختصر عرض یہ ہے کہ ان اشارات کا ماحصل بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں مادہ دخانی تھا پھر اس میں قدرت الٰہی سے انقسام ہوا یعنی اس کے بہت سے ٹکڑے ہوگئے ، پھر ہر ٹکڑے نے ایک کرہ کی شکل اختیار کرلی اور اس کے ایک ٹکڑے سے یہ ہماری زمین بنی ۔ پھر زمین میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ دخانیت نے مائیت کی شکل اختیار کرلی اور اس کے ایک ٹکڑے سے یہ ہماری زمین بنی ۔ پھر زمین میں کوئی ایسی تبدیلی اقع ہوئی کہ دخانیت نے مائیت کی شکل اختیار کرلی یعنی پانی پیدا ہوگیا ۔ پھر خشکی کے قطعات درست ہوئے ، پھر پہاڑوں کے سلسلے نمایاں ہوئے ، پھر زندگی کا نمو شروع ہوا اور نباتات ظہور میں آگئیں۔ موجودہ زما نہیں اجرام سمایہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارض کی ابتدائی نشو ونماکے جو نظریئے تسلیم کر لئے گئے ہیں یہ اشارات بظاہر ان کی تائید کرتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان بنیادوں پر شرح و تفصیل کی بڑی بڑی عمارتیں اٹھا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا ہرگز صحیح نہ ہوگا یہ نظریئے کتنے ہی مستند تسلیم کر لئے گئے ہوں لیکن آخر پھر بھی نظریئے ہی ہیں اور نظریات جزم یقین کے ساتھ حقیقت کا فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ پھر اس سے کیا فائدہ کہ ان کی روشنی میں قرآن کریم کے مجمل اور متحمل اشارات کی تفسیر کی جائے۔ فرض کرو آج ہم نے ذخان اور ذخان کے انقسام کا مطلب اس روشنی میں آراستہ کردیا جو وقت کی نظروں میں تسلیم کیا جاتا ہے لیکن آنے والے کل کو کیا کریں گے اگر ان نظریوں کی جگہ دوسرے نظریئے پیدا ہوگئے ؟ صاف بات یہی ہے کہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی اصل ہم اپنے علم و ادراک کے ذریعہ معلوم نہیں کرسکتے اور قرآن کریم کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح و تحقیق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی طرف انسان کی توجہ دلانا ہے لکین اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ آج تک ہمارے مفسرین نے جو پیدائش عالم کے بارے میں بہت سی روایات نقل کردی ہیں ان کی صحت بھی کوئی یقینی نہیں اور وہ سب کی سب ایک دو کی استثناء کے ساتھ انہی قصص و روایات سے ماخوذ ہیں جو یہودیوں کے ہاں سے ہم کو مستعارمل گئی تھیں اور ان کو بد قسمتی سے حرف آخر سمجھ لیا گیا اور وہ اس طرح مانی اور بیان کی گئیں جیسے صحیح احادیث کے بیان کا التزام ہوتا ہے اور پھر بعض ان میں سے وہ بھی ہیں جو کتب احادیث میں شامل ہوگئی ہیں اگرچہ ان کی تعدادآٹے میں نمک کی بھی نہ ہوتا ہم معترضین کلئے وہ ایک ہتھیار کا کام دیتی ہیں لیکن اگر مترجمین صحاج اس کی طرف توجہ دیتے تو معاملہ بالکل صاف ہو سکتا تھا لیکن افسوس کہ اس وقت ایسی چیزوں پر توجہ نہ دی گئی اور اب ایسا وقت شاید کسی کے پاس نہیں رہا جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھائے۔ ہاں ! اتنی بات تو آسانی سے یاد رکھی جاسکتی ہے کہ اسلام میں اصل حجت قرآن کریم اور اس کے بعد صحیح حدیث کو ہے اور جب ان احادیث پر جو کثرت سے کتب احادیث میں موجود ہیں ان پر بحث کی گئی ہے اور کی جاتی ہے اور پھر ان کے واضح اور جانے سمجھے مفہوم کو چھوڑ کر تفہیم کا رخ کسی دوسری طرف کیا جاسکتا ہے جیسے رفیع الدین ، آمین اور فاتحہ خلف الامام اور اس طرح کی بیحد و شمار احادیث پر لے دے کی جا رہی ہے تو ان احادیث پر جو بالکل شاذ اور تلاش کرنے کے بعد ایسے ابواب میں ملتی ہیں جن کے متعلق بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے اسی مفہوم کی صحیح سمجھ لیا جائے جو مترجمین نے بغیر سعی بلیغ کے ان کے تراجم کردیئے اور وہاں محتاط انداز اختیار کیا جائے۔ اشارات ہم نے کردیئے ہیں اور صاحب علم و فضل انشاء اللہ اس کی راہیں تلاش کریں گے کہ مترجمین سے ان کا جو رخ غلطی سے ٹیڑھا ہوگیا تھا اس کو سیدھا کر دکھائیں ۔ کیونکہ کسی کا ترجمہ بہر حال حجت نہیں بلکہ حجت صرف قول قائل عنی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس میں یقینا کوئی چیز ایسی بیان نہیں کی گئی جو اصل سے الگ ہو اور نہ ہی ایسا ممکن تھا کہ ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۔ ارض و سماء اور جو کچھ ان میں ہے کی تخلیق کے بعد سب کا ناظم بھی وہ خود ہی ہوا 5 ؎ جس ذات الٰہ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے چھ ادوار میں پیدا کردیا وہ ان کو پیدا کرکے تھک نہیں گیا کہ ان کا انتظام اس نے دوسروں کے ہاتھوں میں دے دیا ہو بلکہ اس کارخانہ ہستی کی زمام حکومت بھی اسی کے دست قدرت میں ہے ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام اسی کے حکم اور اسی کے اذن سے انجام پاتا ہے۔ وہ خالق بھی ہے اور مالک بھی ، اس نے تخلیق اور ملکیت کا اذن کبھی کسی کو نہیں دیا اور نہ ہی وہ کبھی دے گا ۔ ہرچیز جس کو اس نے پیدا فرمایا ہے وہ گویا ایک آئینہ ہے جس میں اس کے خالق کے علم کامل اور حکمت بالغہ کے ان گنت جلوے دکھائی دے رہے ہیں بشرطیکہ کوئی بینا آنکھ رکھتا ہو ۔ تدبیر کے لغوی معنی ہی یہ ہیں کہ ” تمام کاموں کو اس طرح کرنا کہ ان سے بہترین نتائج ظاہر ہوں اور اس جگہ بھی اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر بڑی اور چھوٹی چیز کو اس طرح اپنے اپنے مقام پر مناسب صفات سے متصف کر کے رکھتا ہے کہ کسی کو انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوسکتی ۔ مختصر یہ کہ اس طرح اللہ نے اپنی توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرنا سکھا دیا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم مانتے ہو کہ کائنات ہستی کا پیدا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور نہیں تو پھر تدبیر و انتظام عالم کے بہت سے تخت اقتدار تم نے کیوں بنا رکھے ہیں ؟ اور کیوں انہیں بندگی و نیاز کا مستحق سمجھتے ہو ؟ جس طرح یہ بات ہوئی کہ پیدا کرنے والی ہستی اس کے سوا کوئی بھی نہیں اسی طرح تدبر و فرمانروائی کا تخت بھی صرف اور صرف اسی کا تخت ہوا ۔ غور کرو گے تو بہت کچھ سمجھتے جائو گے۔ اس کے پاس کوئی سفارش نہیں کرسکتا مگر وہی جس کو وہ خود اجازت دے 6 ؎ مشرکین مکہ نے جو مٹی اور پتھر کے بت بنا رکھے تھے وہ ان نیک لوگوں کی یاد تازہ کرنے کیلئے تھے جو ان کے ہاں اللہ تعالیٰ کے پاس سفارشی تسلیم کئے جاتے تھے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم متعدد بار وضاحت کرچکے ہیں کہ آج تک جب سے دنیا پیدا ہوئی کبھی کسی قوم نے محض بت کی پوجا نہیں کی بلکہ پوجا ہمیشہ صاحب بت کی ہوتی رہی فی نفسہ بت کوئی چیز نہیں بت انہی نیک لوگوں کے بنائے گئے جو اپنے اپنے زمانہ میں نیک متصور ہوتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے بت گھڑنے شروع کئے حالانکہ ان سب کو بھی یہ معلوم تھا کہ یہ بت ہیں جو ہمارے ہی لوگوں نے تراش لئے ہیں لیکن چونکہ ان کی نسبت ان بزرگوں کے ساتھ تھی جو ان کے ہاں مکرمو معظم سمجھے جاتے تھے جب وہ اس دنیا میں نہ رہے تو ان کے ماننے والوں نے ان کے مجسمے تیار کر لئے اور انہی کے سامنے سجدہ ریز ہونے لگے۔ آج فی زماننا وہ بت متروک ہوگئے اور ان کی جگہ قبروں اور استانوں نے لے لی ۔ جس طرح سب کو معلوم ہے کہ کبھی کسی شخص نے کسی قبر کی پرستش نہیں کی بلکہ پرستش ہمیشہ صاحب قبر ہی کی کی جاتی ہے اس لئے اس سے یہ غلط فہمی مطلق نہ ہونی چاہئے۔ بعض لوگوں نے محض دکانداری چمکانے کئے او دھوکا دیا اور ان کو یہ بات سمجھا دی کہ مشرکین مکہ تو بتوں کی پرستش کرتے تھے اور انہی کی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے اور انہی کی عند اللہ شفیع مانتے اور تسلیم کرتے تھے۔ غور کرو کہ مشرکین اپنے ان بزرگوں کو جن کے انہوں نے بت بنا رکھے تھے قیامت کے روز ان کی شفاعت کرنے کا عقیدہ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ہماری سفارش کریں گے اور ہمیں بخشوالیں گے۔ آیت کے اس حصہ میں ان کا مکمل رد کردیا گیا اور دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ ” اللہ کے حضور کوئی سفارش نہیں کرسکتا ، مگر ہاں ! یہ کہ وہ خود یعنی اللہ تعالیٰ ہی کسی کو اجازت دے دے اور اجازت کے بعد وہ اس کی جرأت کرے “۔ اس میں نہ تو کسی سفارشی کی سفارش کو دخل ہے اور نہ کسی مقرب کے تقرب کو ۔ سفارش کرے گا تو صرف وہ جس کو سفارش کی اجازت دی جائے گی اور یہ بھی کہ جس کیلئے سفارش کی اجازت ہوگی ۔ سفارش میں اذن الٰہی کیوں ؟ اس لئے کہ سفارش کرنا فی نفسہ برا عمل و فعل نہیں بلکہ مستحسن ہے اور مستحسن چیز سے کلی طور پر روکا نہیں جاسکتا ۔ اچھی سفارش ایک اچھا عمل ہے اور بری سفارش برا عمل لہٰذا مشرکنے کے ہاں بلا امتیاز سفارش جائز سمجھی گئی تھی اس لئے اس کی نفی لازم و ضروری تھی کیونکہ انسانوں میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی بعینہٖ اچھے انسانوں سے برائی کا امکان ہے اور وہ ہو بھی جاتی ہے اس طرح بہت سے برے لوگ اچھے کام بھی کر جاتے ہیں اس لئے یہ مسئلہ خالصتہً علم الٰہی کا ہے کہ کون اچھا ہے اور کون برا اور یہ بھی کہ کون کتنا اچھا اور کتنا برا ؟ یہ مسئلہ انسانوں کے بس کا نہیں بہت سے نیک لوگ گزرے ہیں جن کو اس وقت کے لوگوں نے اچھا نہیں سمجھا اور اب بھی یہ حالت اسی حال پر موجود ہے اور بہت سے ایسے لوگ موجود تھے اور ہیں جن کو ان کے زمانہ کے لوگوں نے اچھا سمجھا اور آج بھی اچھا سمجھتے ہیں لیکن بادی النظر میں وہ بالکل اچھے نہیں ۔ اس لئے کلی طور پر کسی انسان کو خواہ وہ کوئی نبی و رسول ہو یا ولی اللہ سفارش کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی اور نہ ہی دی گئی ہاں ! علم الٰہی میں بعض ایسے نیک بھی ہوں گے جن سے کچھ تساہل و تسامح ہوئے ہوں ۔ اور وہ سو فیصد کامیاب قرار نہیں پائیں گے تا ہم اللہ تعالیٰ چاہے گا جس کے متعلق کسی کو سفارش کا حق دے دے گا اور پھر ان کی سفارش سے ان کی کامیابی کا اعلان ہوجائے گا ۔ اس کی مثال یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طالب علم نے سوالات کے جوابات دینے کی پوری کوشش کی لیکن وہ کماحقہ صحیح جواب نہ دے سکا اور کامیابی کے نمبر اس کو نہ مل سکے لیکن جب مجموعی طور پر دیکھا گیا تو ایک دو نمبر سے وہ کامیاب ہو سکتا تھا تو اس کی سفارش ، جو خود ہی دیکھنے والے نے نمبر دے کر کامیاب قرار دے دیا تو یہ کوئی بری بات نہیں اور نہ ہی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس نے فیل کو پاس کردیا ۔ یہی طریقہ سفارش ہے جس کو جائز تسلیم کیا گیا ہے اور یہ رعایت اعزاز ہے ان لوگوں کا جن کو سفارش کی اجازت ہوگی نہ کہ ان لوگوں نے کوئی اپنا حق استعمال کیا کہ جس پر انہوں نے چاہا وہ استعمال کر کے فیل کو پاس یا پاس کو فلج کردیا ۔ حاشاء اللہ کہ کوئی بات اس طرح کہ اس اجازت سے سمجھی جاسکتی ہو۔ بلا شبہ اس وقت کے مشرکوں کا شرک بھی شرک تھا تب ہی قرآن کریم نے بار بار اس شرک کا ذکر کیا اور مشرکین کیلئے سخت سے سخت وعیدیں سنائی گئیں لیکن قربان جایئے اس دور کے مشرکین پر انہوں نے اس دور کے مشرکوں کے بھی کان کاٹ دیئے اور توحید الٰہی کی روشنی کو اس قدر مدھم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کوشش اس وقت کے مشرکین بھی نہ کرسکے۔ آج یہ شرک حکومت کے ایوانوں سے طے کر کے اس ملک عزیز کے سارے اداروں میں ، بڑے بڑے گروہوں سے لے کرچھوٹے چھوٹے فرقوں اور پارٹیوں میں عام ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت صاحب بت کی جگہ صاحب قبر نے لے لی ہے اور بت کی جگہ قبر نے ۔ قرآن کریم ان سب کی تردید کر رہا ہے اور دو ٹوک سنا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اس طرح کا کوئی سفارشی بھی سفارش نہیں کرسکے گا جس طرح کی سفارش ان لوگوں نے سمجھ رکھی ہے کہ سفارش جس کی چاہے سفارش کر دے اور جب چاہے سفارش کرلے۔ یہ اختیار اللہ نے مطلق کسی کو نہیں دیا اور نہ ہی دیا جاسکتا ہے۔ وہی اللہ ہے جو تمہارا پروردگار ہے پس تم اس کی عبادت کرو 7 ؎ تمہارا اللہ وہی ہے جو ان قدرتوں اور حکمتوں کا مالک ہے۔ ہر چھوٹے اور بڑے کام کو وہ اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے سر انجام دیتا ہے اور اس نے ہرچیز کو ایک قانون میں باندھ دیا ہے اور وہ اسی دائرہ میں کام کرتی آتی ہے ، رہی ہے اور کرتی رہے گی ۔ وہی جس کے حضور کوئی بڑے سے بڑا بھی بلا اجازت لب کشائی نہیں کرسکتا اور وہی تمہارا پروردگار بھی ہے اور تمہارا معبودبھی ۔ جب اور ایسا کوئی نہیں تو اسے چھوڑ کر اور کسی کو عبادت کیوں کی جائے ۔ اب تک اگر بعض غلط فہمیوں کے باعث تم حقیقت حال سے بیخبر رہے ہو اور اپنے معبود بر حق کے ساتھ عبودیت و بندگی کا رشتہ صحیح معنوں میں استوار نہیں کرسکتے تو اب جب کہ حقیقت عیاں ہوچکی اور تم کو دودھ کا ددھ اور پانی کا پانی کر دکھایا اور گرد و غبار مکمل طور پر چھٹ گیا تو اب ہوش میں آئو اور اپنی عمر کا بقیہ حصہ خالصتہ ً اللہ کی یاد میں صرف کرو اور اپنے کئے کی تلافی کرلو ۔ ابھی وقت ہے جب تک کہ موت کے ساتھی سے ملاقات نہیں ہوتی اس وقت کہ غنیمت سمجھو اور اپنی بھول سے توبہ کر کے راہ ہدایت اختیار کرلو۔ بتائو اب بھی تم غورو فکر سے کام لو گے یا نہیں ؟ 8 ؎ اگر بات تم نے غور سے سنی ہے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے تو اب ذرا یہ بھی بتاتے جائو کہ تم خود بھی نصیحت پکڑنے کیلئے تیار ہو یا نہیں ؟ یہ تاکید کیوں فرمائی ؟ اس لئے کہ اس دنیا میں سنی ان سنی کرنے والوں کی اتنی بہتات ہے کہ ان کے مقابلہ میں صحیح معنوں میں سننے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ ایسے بہت ہیں جو سر بلاتے اور ہاں ! ہاں جی کرتے رہتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں ! ہاں ! کہنے والے اور سر ہلا ہلا کر تصدیق کرنے والے کوئی اور تھے اور یہ وہ لوگ بالکل نہیں اس لئے کہ انہوں نے تو کچھ بھی نہیں سنایا پھر سن کر سارا بھول گئے۔ اس نصیحت کے بعد اب مشرکین کو آخرت کی یاد دہانی کرائی جا رہی ہے جس پر ان کو یقین نہیں آتا تھا۔
Top