Tafseer-e-Madani - Yunus : 3
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قائم ہوا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر يُدَبِّرُ : تدبیر کرتا ہے الْاَمْرَ : کام مَا : نہیں مِنْ : کوئی شَفِيْعٍ : سفارشی اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِذْنِهٖ : اس کی اجازت ذٰلِكُمُ : وہ ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : پس اس کی بندگی کرو اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : سو کیا تم دھیان نہیں کرتے
بیشک رب تم سب کا (اے لوگو) وہی اللہ ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں کے اندر، پھر وہ جلوہ فرما ہوا عرش پر، (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) وہی تدبیر فرماتا ہے ہر کام کی، (اس کے یہاں) کسی کو بھی سفارش کا یار انہیں، مگر اس کے اذن کے بعد، یہی اللہ رب ہے تم سب کا، پس تم اسی کی بندگی کرو، تو کیا تم لوگ سبق نہیں لیتے ؟3
3 ۔ تخلیق کائنات کے چھ دنوں سے مراد ؟: سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک تمہارا رب اے لوگو ! وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کو پیدا فرمایا چھ دنوں میں یعنی چھ مختلف زمانوں، میں کہ " یوم " کا اطلاق زمانے اور مطلق وقت پر بھی ہوتا ہے (المراغی، المنار وغیرہ) اور یہ اطلاق ہمارے محاوروں اور روزمرہ کی عام گفتگو میں بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے " خوشی کا دن "، " غمی کا دن " وغیرہ ظاہر ہے کہ ایسے اطلاق میں دن سے معروف معنوں میں میں نپاتلا دن مراد نہیں ہوتا بلکہ مطلق وقت مراد ہوتا ہے جو کہ معروف دن سے کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ سو آیت کریمہ میں (ستۃ ایام) چھ دنوں سے مراد معروف معنوں میں چھ دن نہیں کہ یہ دن تو بنتے ہیں سورج کے طلوع و غروب سے۔ اور زمین و آسمان کی اور اس کائنات کی تخلیق سے پہلے تو طلوع و غروب کا یہ سلسلہ سرے سے تھا ہی نہیں تو پھر یہاں پر اس سے معروف معنوں میں چھ دن کیسے مرادلئے جاسکتے ہیں ؟ پھر قدرت تو اس کی (کن فیکون) کی ہے کہ جو چاہا اور جب چاہا ہوگیا مگر اپنی حکمت کی بناء پر اس نے آسمان و زمین کا یہ کارخانہ قدرت اتنی مدت میں پیدا فرمایا اور اس کی حکمتوں کا احاطہ وہی وحدہ لاشریک کرسکتا ہے البتہ ایک بڑا اور واضح فائدہ اس کا یہ ہے کہ اس میں تدریج وتانی کا درس ہے کہ جلدبازی صحیح چیز نہیں ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا،۔ 4 ۔ استواء علی العرش سے مقصودومراد ؟ سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر وہ مستوی ہواعرش پر یعنی ایسا استواء جو کہ اس کی شان اقدس واعلیٰ کے لائق ہے جیسا کہ اسلاف کرام سے مروی ہے کہ استواء کا مفہوم تو واضح اور معلوم ہے مگر اس کی کیفیت ہمارے علم سے باہر ہے اس لئے اس کی تحدیدو تعیین کی تکلیف مالایطاق میں پڑنے کی بجائے اس کی کیفیت کو اسی وحدہ لاشریک کے حوالے کردیا جائے کہ جو اس کی شان اقدس واعلیٰ کے لائق ہے۔ اور یہی سلامتی کی راہ ہے۔ سو اس میں بحث و تکرار اور کھود کرید کرنا بدعت اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ فنؤمن بہ کمایلیق بشانہ جل وعلا۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعدوہ کہیں الگ اور خاموش ہو کر نہیں بیٹھ گیا کہ اس کائنات کا نظم وانصرام دوسروں کے حوالے کردیا ہو نہیں بلکہ وہ خود عرش حکومت پر متمکن ہوگیا اور اپنی پیدا کردہ اس کائنات میں حکم وارشادبھی اسی وحدہ لاشریک ہی کا چلتا ہے پس جس طرح اس کائنات کی تخلیق وتکوین میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں اسی طرح اس کے حکم وتصرف میں بھی کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں۔ اس سب کا خالق ومالک بھی وہی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی۔ اس میں کوئی بھی اس کا شریک وسہیم نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 5 ۔ ہر کام کی تدبیر اللہ ہی کی طرف سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی تدبیر فرماتا ہے ہر کام کی اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق اور اپنی مخلوق کی بہتری اور بھلائی کے لئے۔ سو ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کی تخلیق کے بعدوہ کہیں الگ جاکر بیٹھ گیا ہوجیسا کہ بہت سے گمراہوں کا عقیدہ رہا ہے۔ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے بلکہ اپنی اس کائنات میں تصرف بھی وہ خود فرمارہا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک وہی وحدہ لاشریک ہے اور اس میں حکم وتصرف بھی اسی کا چلتا ہے اور جب اس کی اس کائنات کی تخلیق اور اس کے حکم وتصرف میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس شریک وسہیم آخرکس طرح ہوسکتا ہے ؟ سو اس کائنات کی تخلیق بھی اس وحدہ لاشریک نے تن تنہابذات خودبلاشرکت غیرے فرمائی اور اس میں حکم وتصرف بھی اسی کا چلتا ہے نہ اس کی تخلیق میں کوئی شریک وسہیم ہے اور نہ اس کی حکمرانی میں زبور میں اسی حقیقت کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ تو نے تخت پر بیٹھ کر صداقت سے انصاف کیا "۔ (9: 4) جل وعلاشانہ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 6 ۔ مشرکانہ تصور شفاعت کی نفی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی جبری اور قہری سفارش کا وہاں کوئی امکان نہیں سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کے یہاں کسی کو سفارش کا بھی یارا نہیں مگر اسی کے اذن سے سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس جبروقہر کی کسی سفارش کا وہاں کوئی امکان نہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا کل بھی تھا اور آج بھی ہے کہ فلاں فلاں جو ہمارے سفارشی ہیں وہ وہاں اڑ کے بیٹھ جائیں گے اور منوا کے چھوڑیں گے اور ہم نے جب ان کا لڑپکڑلیاتو ہمیں اور کسی کی کیا پروا ؟ وغیرہ وغیرہ سو ایسے تمام مفروضے غلط اور بےبنیاد ہیں۔ اس طرح کی کسی سفارش کی وہاں گنجائش نہیں ہوگی۔ البتہ اس کے اذن اور منظوری کے بعدوہاں سفارش ہوسکے گی اور وہ کام بھی دے گی مگر وہ اذن ومنظوری جس کو اجازت ملے گی وہی سفارش کرسکے گا اور جس کے لئے ملے گی اسی کے لئے وہ سفارش کام آسکے گی جیسا کہ دوسرے کئی مقامات پر اس کی تصریح فرمادی گئی ہے۔ مثلا ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے (الامن اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا) (طہ : 109) پس کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ خدا کے عدل وانصاف سے وہ کسی کی سعی و سفارش کے زور سے اپنے آپ کو بچالے گا۔ نہیں اور ہرگز نہیں وہ ایسے تمام تصورات سے پاک ہے، اور اس کا ہر حکم و فیصلہ عدل وانصاف اور حق و صداقت ہی پر مبنی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 7 ۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کی صفات کے ذریعے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اللہ رب ہے تم سب کا اے لوگو یعنی جس کی یہ اور یہ صفات ہیں پس تم اسی کی بندگی کرو۔ کیا تم لوگ سبق نہیں لیتے کہ ان ٹھوس دلائل اور واضح حقائق کے باوجودتم نے طرح طرح کے دوسرے معبود بنارکھے ہیں۔ سو تم لوگوں نے اگر اللہ تعالیٰ کو پہنچاننا ہے تو اس کی انہی صفات کے ذریعے اور اس کے اپنے ارشادات کے مطابق اس کو پہچانو۔ اور صدق دل سے اس کے ارشادات کے مطابق اس کے آگے جھک جاؤتاکہ تم سعادت دارین سے سرفرازہوسکو۔ ورنہ اس کے بغیر اس کی ذات اقدس واعلیٰ کی حقیقت کو جاننا اور اس کہ کنہہ کا ادراک کرنا اور اس کے حقوق واختیارات کو پہنچاننا انسان ضعیف البینان کی طاقت سے باہر ہے۔ جل وعلاشانہ۔ اللہم زدنا ایمانابک ویقینا۔ سو خدا وندقدوس کی معرفت سے سرفرازی کا صحیح طریقہ اور ذریعہ وسیلہ یہ ہے کہ انسان کائنات کی اس کھلی کتاب کو دیکھے اور اس میں غور و فکر سے کام لے کہ جس نے اس حکمتوں بھری کائنات کو پیدا فرمایا ہے اور اس کو طرح طرح سے انسان کے لیے مسخر کردیاوہی ہے اللہ جو اس ساری کائنات کا خالق اور اس کا مالک ہے۔ وہی معبودبرحق ہے اور عبادت کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے اور اس کی عبادت و بندگی کا طریقہ وہی ہوسکتا ہے جو اس نے اپنی وحی کے ذریعہ اپنے بندوں کو سکھایا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس کے سوا اور کوئی صورت ممکن نہیں اور محض اپنی عقل وفکر کی بناء اس کے لئے جو بھی تصورقائم کیا جائے گا وہ بہرحال غلط ہوگا۔
Top