Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 3
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قائم ہوا
عَلَي الْعَرْشِ
: عرش پر
يُدَبِّرُ
: تدبیر کرتا ہے
الْاَمْرَ
: کام
مَا
: نہیں
مِنْ
: کوئی
شَفِيْعٍ
: سفارشی
اِلَّا
: مگر
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِذْنِهٖ
: اس کی اجازت
ذٰلِكُمُ
: وہ ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
فَاعْبُدُوْهُ
: پس اس کی بندگی کرو
اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
: سو کیا تم دھیان نہیں کرتے
تمہارا پروردگار تو خدا ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش (تخت شاہی) پر قائم ہوا وہی ہر ایک کا انتظام کرتا ہے۔ کوئی (اس کے پاس) اس کا اذن حاصل کیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا، یہی خدا تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے
ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض حقیقت ناقابل شک یہ ہے کہ تمہارا مالک وہ اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ آسمان و زمین تمام ممکنات (مخلوقات) کے اصول ہیں (تمام چیزیں بقول فلاسفۂ یونان انہی کی تائید و تأثر سے بنی ہیں۔ فی ستۃ ایام چھ دن میں ‘ یعنی دنیا کے چھ روز کے بقدر مدت میں۔ یوں تو اللہ آن کی آن میں سارے جہان کو پیدا کرسکتا تھا مگر مخلوق کو آہستہ روی اور تدریج کی تعلیم دینے کیلئے اس نے چھ روز میں آسمان و زمین بنائے۔ ثم استوی علی العرش پھر عرش (تخت شاہی) پر وہ قائم ہوا۔ سلف سے خلف تک تمام اہل سنت کا باتفاق عقیدہ ہے کہ اللہ تمام جسمانی صفات اور حدوث کے عوارض سے پاک ہے ‘ لیکن آیت مذکورۃ الصدر اور اسی جیسی دوسری آیات (جن میں صفات جسم کے ساتھ اللہ کا انصاف ظاہر کیا گیا ہے) بظاہر اہل سنت کے مسلک و عقیدے کے خلاف نظر آتی ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے دو جواب دئیے گئے ہیں : (1) تاویل کا مسلک اختیار کیا گیا ہے ‘ یعنی ظاہری الفاظ کے وہ (مجازی) معنی لئے گئے ہیں جو شان خداوندی کے مناسب ہیں کیونکہ آیت وَمَا یَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗٓ الاَّ اَللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ میں الراسخوان کا عطف اللّٰہُ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ متشابہات کا صحیح علم اللہ کو اور مضبوط علم رکھنے والوں کو ہی ہے (اس سے معلوم ہوا کہ متشابہات کی حقیقی مراد اور تاویل سے علماء ربانیین بھی واقف ہیں) اس کی تفصیلی بحث سورة آل عمران میں گذر چکی ہے۔ اس توجیہ کی روشنی میں آیت مذکور میں استَوٰی کو بمعنی اِسْتَولٰیقرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عرش جو سب سے اعلیٰ اور بالا مخلوق ہے ‘ جب اللہ اس پر غلبہ رکھتا ہے تو دوسری مخلوق پر اللہ کا تسلط بدرجۂ اولیٰ ظاہر ہے۔ پس ساری مخلوق اس کے زیرتسلط ہے۔ (1) [ استویٰکا معنی استولٰی اور تَسَلَّطَ عربی کلام میں بکثرت آیا ہے۔ کسی شاعر کا ایک شعر ہے قَدِ اسْتَویٰ بَشَرٌ عَلَی الْعِرَقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَدَمٍ مُّھْراقٍ ۔۔ یعنی بشر نے بغیر تلوار چلائے اور خون بہائے عراق پر تسلط کرلیا (مترجم)] لیکن بغوی نے کہا : استواء کو بمعنی استیلاء وتسلُّط قرار دینا معتزلہ کا قول ہے۔ (2) سلف صالحین کا مسلک ‘ اہل تاویل کے مسلک کے خلاف ہے۔ تمام علماء سلف کا قول ہے کہ اس قسم کی آیات کے ظاہر پر ایمان لانا واجب ہے۔ ان کی تنقیح اور موشگافیوں سے اجتناب لازم ہے۔ ان کی حقیقت کے علم کو اللہ کے سپرد کردینا ضروری ہے۔ اسی بناء پر امام محمد بن حسن نے فرمایا تھا کہ پورب سے پچھم تک تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث میں اللہ کی جو صفات آئی ہیں ‘ ان کو (یونہی) بغیر تشریح و تنقیح و توضیح کے ماننا اور ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو شخص ان کی توضیح کرتا ہے ‘ وہ رسول اللہ ﷺ اور اجماع سلف کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اس کا رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین اور جماعت مسلمین کے اختیار کردہ مسلک سے تعلق نہیں۔ امام مالک بن انس نے فرمایا : استواء (کا حقیقی ترجمہ) مجہول نہیں (استواء کی) کیفیت معلوم نہیں اور کیفیت استواء کو دریافت کرنا بدعت ہے۔ سلف صالحین ‘ تنزیہ باری تعالیٰ کے قائل تھے ‘ اسی کے ساتھ استواء علی العرش کو (بغیر تاویل کے) مانتے تھے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اللہ آسمان میں یقیناً ہے ‘ زمین میں نہیں۔ رواہ البیہقی۔ اس قول کی نسبت بھی امام ابوحنیفہ کی طرف کی گئی ہے کہ جس نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ میرا رب آسمان میں ہے یا زمین میں ‘ وہ کافر ہوگیا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی۔ اور عرش آسمانوں کے ادھر ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ بھی آیا ہے کہ جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ‘ وہ کافر ہوگیا۔ امام شافعی نے فرمایا : اللہ اپنے عرش پر اپنے آسمان میں ہے۔ وہ جیسا چاہتا ہے ‘ اپنی مخلوق کے قریب بھی ہوتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ‘ اترتا ہے (یعنی اللہ کا عرش پر ہونا مخلوق کے قریب ہونا اور نیچے اترنا ‘ تینوں قول صحیح ہیں لیکن عرش پر موجود ہونے ‘ مخلوق کے قریب ہونے اور نیچے اترنے کی کیفیت معلوم نہیں) ایسا ہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی مروی ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا بیان ہے : تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ عرش کے اوپر مستوی ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ مزنی ‘ ذہبی ‘ بخاری ‘ ابو داؤد و ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابو یعلی ‘ بیہقی اور دوسرے ائمۂ حدیث کا یہی قول ہے۔ ابو زرعہ رازی کے قول سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسی قول پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ حافظ عثمان بن سعید دارمی نے لکھا ہے کہ تمام مسلمان اس قول پر متفق ہیں کہ اللہ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر ہے۔ سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : یہ کہنا جائز نہیں کہ جس نے استواء کو پیدا کیا ‘ وہ کیسے مستوی ہوسکتا ہے۔ ہمارے لئے (استواء کو) ماننا اور تسلیم کرنا لازم ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔ محمد بن جریر طبری نے لکھا ہے : مسلمان کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس کا رب عرش پر مستوی ہے۔ جو اس سے آگے بڑھے گا ‘ وہ نامراد اور خسران مآب ہوگا۔ محمد بن خزیمہ نے کہا : جو شخص اللہ کو عرش پر ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی اور سب مخلوق سے جدا نہیں کہتا وہ کافر ہے ‘ اس سے توبہ کرائی جائے توبہ کرلے تو خیر ‘ ورنہ اس کی گردن مار دی جائے۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ عرش و کرسی ویسے ہی ہیں جیسے اللہ نے اپنی کتاب میں ان کو بیان کیا ہے۔ اللہ عرش سے بےنیاز ہے اور عرش کے نیچے والی چیزوں سے بھی۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز سے اوپر ہے۔ شیخ ابو الحسن اشعری بصری نے کتاب ” اختلاف المضلین و مقالات الاسلامیین “ میں اہل سنت اور اصحاب حدیث کا ایک قول لکھا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ‘ اللہ کے فرشتوں ‘ کتابوں اور پیغمبروں کا ماننا اور جو کلام اللہ کی طرف سے آیا ہے اور جو رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیثوں میں مذکور ہے ‘ سب کا اقرار کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی چیز کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ماننا لازم ہے کہ اللہ اپنے عرش پر ہے ‘ جیسا کہ اس نے خود آیت الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی میں فرمایا ہے اور اللہ کے دو ہاتھ بھی ہیں مگر بغیر کیفیت (مخلوقیہ) کے۔ اس نے خود فرمایا ہے : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۔ ابو نعیم نے حلیہ میں لکھا ہے : ہمارا طریقہ سلف کے طریقے کے موافق ہے جو کتاب اللہ ‘ احادیث رسول اللہ ﷺ اور اجماع کے پیرو تھے اور اس بات کا اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ ہمیشہ سے اپنی تمام صفات میں کامل ہے ...... آخر میں ابو نعیم نے کہا : جن احادیث میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے ‘ سلف ان کو مانتے تھے اور اللہ کو عرش پر بغیر کسی (مخلوقی) کیفیت اور تشبیہ کے مستوی مانتے تھے اور اس امر کے بھی قائل تھے کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ اللہ آسمان میں عرش پر سات آسمانوں کے اوپر ہے ‘ جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے۔ خطیب نے کہا : سلف کا مسلک یہ ہے کہ ایسی (متشابہ) آیات کا اقرار کیا جائے اور ان کے ظاہری معنی پر ہی الفاظ کو محمول کیا جائے اور کیفیت و تشبیہ کی نفی کی جائے (یعنی کوئی کیفیت اور تمثیل و تشبیہ نہ بیان کی جائے کہ معنی معلوم ہے مگر معنی کی کیفیت مجہول ہے اور وجہ اللہ یا ید اللہ یا استواء علی العرش کو ہم مخلوق کے چہرے ‘ ہاتھ اور استواء سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔ یہ چیزیں اللہ کی صفات ہیں مگر ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے مناسب ہیں) امام الحرمین نے کہا : عقیدۂ سلف کا اتباع ہی پسندیدہ اعتقاد اور دین اللہ ہے۔ ائمۂ سلف نے تاویل سے اجتناب کیا ہے ‘ الفاظ کے ظاہری معنی کو اختیار کیا ہے اور معانی (کی وضاحت و تفصیل) کو اللہ کے سپرد کیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : اہل سنت قائل ہیں کہ استواء علی العرش اللہ کی صفت ہے بلاکیف۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ بیضاوی نے لکھا : اس کا مطلب یہ ہے کہ استواء علی العرش اللہ کیلئے ویسا ہے جیسا اس کے مناسب ہے۔ استقرار اور مکانیت کی آمیزش سے پاک ہے۔ ابوبکرعلی بن عیسیٰ شبلی جو اپنے زمانہ کے صوفیاء میں سب سے بڑے عالم تھے ‘ کہتے ہیں : رب آسمان میں ہے ‘ حکم دیتا ہے اور فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری نے اخبار شتّٰی میں لکھا ہے کہ اللہ ساتویں آسمان میں عرش پر ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی نے غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے اور اس موضوع پر بہت تفصیلی بحث کی ہے (جس کا خلاصہ وہی ہے جو علمائے سلف سے منقول ہے کہ معانی معلوم ہیں ‘ کیفیت نامعلوم اور ہر تشبیہ سے پاک) ۔ یہ تمام اقوال ذہبی نے ” کتاب العلو “ میں نقل کئے ہیں۔ صحابہ ‘ تابعین ‘ محدثین ‘ فقہاء اور صوفیہ کی کثیر جماعت (تقریباً کل) کا یہی مسلک ہے۔ میں نے مختصراً سورة الاعراف کی آیت ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَاور سورة البقرہ کی آیت یَأتِیَھُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِکی تفسیر میں بیان کردیا ہے کہ اصحاب قلوب کے نزدیک ذات باری تعالیٰ کی خصوصی تجلی اور خاص پرتو بعض مخلوق پر پڑتا ہے ‘ وہ مخلوق نورانی لہروں سے نور چیں ہوتی ہے۔ اس سے ذات باری محل حوادث نہیں بن جاتی ‘ نہ خالص مرتبۂ تنزیہ سے اس کا (تشبیہ کی طرف) تنزل ہوتا ہے ‘ بلکہ ممکنات میں ایسا جوہر پیدا ہوجاتا ہے جو پرتو اندوزی کے قابل بن جاتا ہے (امکان و حدوث کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں جلوہ پزیری کی قابلیت بڑھ جاتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔ اس جلوہ پاشی سے وجوب و قدم میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ وجوب سے امکان اور قدم سے حدوث کی طرف ذات واجب و قدیم کا تنزل نہیں جاتا) میں نے سورة البقرہ میں آیت ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوَّاھُنَّ سَبْعَ سَّمٰوٰتٍ کی تفسیر کے ذیل میں اس جلوہ پاشی کی تنقیح کردی ہے جو مؤمن کے دل پر ‘ کعبہ پر اور عرش عظیم پر خصوصیت کے ساتھ ہوتی ہے (یعنی بعض مخلوق تجلئ الٰہی کی خصوصی جو لانگاہ ہے ‘ خصوصیت کے ساتھ وہ جلوۂ خداوندی سے نورچیں ہوتی ہے ‘ اس پر خاص چمکار 1 اور پرتو پڑتا ہے ‘ اس سے جلوہ ریزی اور نور پاشی کرنے والی ذات کا محتاج مکان و زمان اور حامل کیف و کم ہونا لازم نہیں آتا ہے۔ وہ جلوۂ قدیم بےکیف ہے ........ بےمکان ہے ‘ بےزمان ہے اور ہر حادث مقدار و عوارض سے پاک ہے۔ یدبر الامر ہر کام کی (مناسب) تدبیر کرتا ہے۔ یعنی حسب تقاضائے حکمت وہ کائنات کے تمام امور کا فیصلہ کرتا ہے۔ تدبیر کا معنی ہے تمام امور کے ادبار (یعنی انجام) پر نظر رکھ کر کام کرنا تاکہ نتیجہ اچھا نکلے۔ ما من شفیع الا من بعد اذنہ کوئی (کسی کا) سفارشی نہ ہوگا مگر اس کے اذن کے بعد۔ اللہ کی عظمت کا اظہار اس فقرہ میں کیا گیا ہے۔ اس آیت کا نزول نضر بن حارث کے متعلق ہوا جس نے کہا تھا کہ اگر قیامت کا دن ہوا تو لات و عزّٰی میری سفارش کردیں گے (لات و عزّٰی عورت کی شکل کے دو بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی) آیت میں اشارہ ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ضرور ہوگی مگر اللہ کی اجازت کے بعد ہوگی۔ ذلکم اللہ یہ اللہ ہے۔ یعنی وہ ذات جو صفات مذکورہ کا مجموعہ ہے اور صفات مذکورہ کا تقاضۂ الوہیت ہے ‘ وہی ذات اللہ ہے۔ ربکم تمہارا رب ہے۔ یعنی وہی تمہارا رب ہے ‘ اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ یا اس کی صفات میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ فاعبدوہ پس تم اس کی پوجا کرو۔ یعنی اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ جماد تو الگ رہے ‘ ان میں تو نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں ‘ کسی انسان اور فرشتے کی بھی پوجا نہ کرو۔ افلا تذکرون۔ کیا تم بالکل غور نہیں کرتے کہ غور کرنے سے اتنا سمجھ لو کہ اللہ ہی معبودیت کا مستحق ہے۔ جن کی تم پوجا کرتے ہو ‘ ان میں سے کوئی بھی معبود بننے کے قابل نہیں۔
Top