Tafseer-e-Madani - Hud : 103
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ١ؕ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ١ۙ لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّمَنْ خَافَ : اس کے لیے جو ڈرا عَذَابَ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا عذاب ذٰلِكَ : یہ يَوْمٌ : ایک دن مَّجْمُوْعٌ : جمع ہوں گے لَّهُ : اس میں النَّاسُ : سب لوگ وَذٰلِكَ : اور یہ يَوْمٌ : ایک دن مَّشْهُوْدٌ : پیش ہونے کا
بلا شبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ہر اس شخص کے لئے جو ڈرتا ہے آخرت کے عذاب سے، یہ وہ ہولناک دن ہوگا، جس میں جمع کیا جائے گا سب لوگوں کو اور یہ وہ دن ہوگا جس میں پیشی ہوگی ہر کسی کی،3
200 ۔ عقیدہ آخرت اصلاح احوال کی اساس و بنیاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ہر شخص کے لیے جو ڈرتا ہو عذاب آخرت سے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ عبرت پذیری کے لیے اولین شرط اور بنیادی امر عذاب آخرت کا خوف اور اس کا ڈر ہے کہ اس کے بغیر انسان بےفکر اور لاپرواہ بن جاتا ہے۔ اور صرف بطن و فرج اور مادہ و معدہ کے تقاضوں کے لیے جینے اور مرنے کا عادی بن جاتا ہے جس کے بعد حق و ہدایت اور وعظ و نصیحت کی آواز اس کے کانوں کے پردوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس ہوتی ہے۔ اس کے دل و دماغ تک نہیں پہنچ پاتی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا کہ ان قوموں کی ان سرگزشتوں میں بڑی بھاری نشانی اور سامان عبرت و بصیرت ہے مگر ان سے آنکھیں ان ہی لوگوں کی کھلتی ہیں اور درس عبرت و بصیرت ان ہی کو ملتا ہے جو آخرت کا خوف و اندیشہ رکھتے اور اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے ڈرتے ہوں کہ دل اصل میں ایسے ہی لوگوں کے زندہ اور ہر قول حق و ہدایت کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ ورنہ آخرت کے منکر ایسے شخص بیل اور اندھے جانور کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کو نہ کوئی تنبیہ کام دیتی ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی نشانی۔ وہ کسی بھی طرح ماننے اور ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ( وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ) (یونس : 101) سو عقیدہ آخرت ایک عظیم الشان اور انقلاب آفرین عقیدہ ہے کہ اسی سے آدمی فکر مند ہوتا اور سنجیدہ بنتا ہے اور وہ حق بات سننے اور ماننے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اور بہتر سے بہتر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ اس عقیدہ و ایمان سے محرومی کی صورت میں۔ والعیاذ باللہ۔ انسان کے دل و دماغ کے منافذ و مداخل قبول حق سے بند ہوجاتے ہیں اور وہ محروم سے محروم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 201 ۔ یوم آخرت سب لوگوں کے لیے جمع ہونے کا دن : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ہولناک دن ہوگا جس میں جمع کیا جائے گا سب لوگوں کو تاکہ وہاں پہنچ کر ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ اور بدلہ پاس کے اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے بھرپور طریقے سے اور اپنی آخری شکل میں پورے ہوسکیں۔ جس کے نتیجے میں سچے ایمان و یقین والے جنت اور اس کی ابدی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔ اللہ ہمیں انہی سب میں کرے۔ اور اس کے برعکس کفر و انکار والے دوزخ کے ہولناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو وہ ایسا عظیم الشان دن ہوگا کہ اس میں اولین اور آخرین سب کو اکٹھا کرکے لایا جائے گا۔ یعنی سب اگلوں کو بھی اور پچھلوں کو بھی۔ حضرات انبیائے کرام کو بھی اور ان کی امتوں کو بھی۔ نیکی کی تعلیم دینے والوں کو بھی اور برائی کی راہیں دکھانے والوں کو بھی۔ حاکموں کو بھی اور محکوموں کو بھی۔ زیردستوں کو بھی اور زبردستوں کو بھی۔ ظالموں کو بھی اور مظلوموں کو بھی۔ تاکہ نیکی کی کمائی کرنے والوں کو ان کی نیکیوں کا پھل ملے اور برائی کی فصل کاشت کرنے والے اپنے کیے کرائے کا بھگتان بھگت سکیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 202 ۔ یوم آخرت، حضوری اور پیشی کا دن : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس دن ہر کسی کی پیشی ہوگی اپنے رب کے حضور جہاں وہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا ریکارڈ حاضر اور موجود پائیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا (وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا) (الکہف : 49) اور اسی کے مطابق ہر کسی کو اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے بھرپور اور کامل طریقے سے پورے ہوں۔ سو وہ یوم مشہود سب کی حاضری کا دن ہوگا جس میں سب کو حاضر کیا جائے گا تاکہ سب یکجا اور آمنے سامنے موجود ہوں تاکہ سب کے سامنے واضح ہوسکے کہ کس نے اپنی دنیاوی زندگی کس طرح گزاری اور حق کی اشاعت و تبلیغ یا اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لیے کس نے کیا کردار کیا ؟ تاکہ اس کے مطابق ان کے درمیان ہر معاملے کا فیصلہ پورے عدل و انصاف کے ساتھ ہوسکے۔ اور یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جس کو قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر بیان فرمایا گیا۔ مثلا سورة نحل : 89 سورة نور : 24، سورة غافر : 51، اور سورة بروج : 1 ۔ 3 وغیرہ۔
Top