Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
ذکر تخلیق سامان حیات روحانی واعطاء خلافت ربانی قال تعالیٰ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض۔۔۔ الی۔۔۔ انہ ھو التواب الرحیم گزشتہ آیات میں زمین و آسمان اور دیگر مخلوقات کی پیدائش کو بیان فرمایا کہ ہم نے ان تمام مخلوقات کو تمہارے نفع کے لیے پیدا کیا ہے۔ آئندہ آیات میں ان مخلوقات سے منتفع ہونے والی مخلوق یعنی انسان کا ذکر فرماتے ہیں۔ انسان سے پہلے دو قسم کی مخلوق موجود تھی۔ ایک فرشتے دوسرے جن اور یہ دونوں قسمیں علوی اور سفلی۔ ارضی اور سماوی اشیاء سے متمتع اور منتفع نہیں ہوسکتیں۔ فرشتوں کا نہ منتفع ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ فرشتوں کو نہ زن اور فرزند کی ضرورت اور نہ طعام و شراب اور نہ طعام و شراب کے لوازم یعنی شہوت اور غضب کی ان کو حاجت۔ جنات اگرچہ بعض چیزوں سے متمتع اور منتفع ہوتے ہیں۔ مگر لطافت بدنی اور غلبۂ ناریت کی وجہ سے بہت سے سامان حفاظت سے مستغنی ہیں۔ نہ ان کو کسی مکان اور عمارت کی ضرورت اور نہ کسی قلعہ اور برج کی حاجت ہے اور نہ وہ اپنی حفاظت میں تیر وتلوار اور کسی قسم کے ہتھیار کے محتاج ہیں۔ پس اگر وہ عالم کی بعض اشیاء سے منتفع بھی ہیں تو وہ انتفاع نا تمام اور ناقص ہے۔ علاوہ ازیں جنات کی قوت خیالیہ ان کی قوت عقلیہ پر اس درجہ غالب ہے کہ جس چیز کا وہ خیال کرلیتے ہیں۔ اس کو واقعی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کا انتفاع حقیقی اور واقعی نہیں بلکہ خیالی ہے۔ بخلاف انسان کے کہ وہ ان تمام چیزوں سے حقیقۃً اور علی وجہ الکمال منتفع ہوسکتا ہے اس لیے منصب خلافت کے لیے انسان ہی کو خاص کیا گیا۔ جسمانی حیثیت سے تمام عناصر اربعہ اور عالم سفلی کی تمام اشیاء سے نفع اٹھا سکتا ہے اور روحانی حیثیت سے عالم علوی کی تمام چیزوں سے متمتع اور متخلق باخلاق الہیہ اور متصف بصفات ربانیہ ہوسکتا ہے۔ واذ قال ربک للملئکۃ۔ اور اے محمد ﷺ آپ اس وقت کو یاد دلائیے جب تیرے پروردگار نے حضرت آدم کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے ان کی پیدائش سے پہلے ہی فرشتوں سے یہ فرمایا۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ تحقیق میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ اور نائب بنانے والال ہوں جو میرا نائب ہو کر زمین پر حکومت کرے گا اور زمین والوں پر میرے حکموں کو جاری اور نافذ کرے گا اور وہ خلیفہ عناصر اربعہ سے مرکب ہونے کی وجہ سے زمین کا انتظام کریگا۔ اور منافع ارضیہ سے منتفع ہوگا اور اس میں ایک روح آسمانی پھونکوں گا جس کی وجہ سے وہ آسمان والوں پر حکم چلائے گا۔ گدائے مصطبہ ام لیک وقت مستی بیں کہ ناز بر فلک وحکم برستارہ کنم حضرت آدم کی خلافت کا تذکرہ ملائکہ سے اس لیے فرمایا کہ کائنات ارضی اور سماوی کے منافع فرشتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ آسمان سے پانی کا برسانا۔ زمین سے اشجار ونباتات کا اگانا۔ گرم اور سرد ہواؤں کا چلانا وغیر ذلک۔ من جانب اللہ ان تمام چیزوں پر فرشتوں کا پہرہ ہے۔ اور یہ تمام امور فرشتوں ہی کی محافظت اور نگرانی میں ہیں۔ پس جب تک فرشتے اللہ کے خلیفہ کی اطاعت نہ کریں اس وقت تک خلافت کا کام سرانجام نہیں پاسکتا۔ اسی لیے حق تعالیٰ شانہ نے اول فرشتوں کلے سامنے حضرت آدم کو علمی فضل و کمال ظاہر فرمایا اور پھر ان کو سجدہ کا حکم دیا سلاطین عالم جب کسی کو منصب وزارت پر سرفراز کرتے ہیں تو حکومت کی تمام فوجیں اس کی ماتحتی میں دیدی جاتی ہیں اور وہ آکر سلامی دیتی ہیں۔ اسی طرح حق جل شانہ نے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو منصب خلافت پر سرفراز فرمایا تو اپنے تمام جنود و عساکر (یعنی ملائکہ) سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اطاعت اور فرمانبرداری کا سجدہ کرادیا۔ تاکہ خلافت کے کام میں کسی قسم کا کوئی خلل نہ پیش آئے اور چونکہ یہ تمام عالم بمنزلہ ایک شہر کے ہے اور فرشتے اس کے عامل اور کارکن ہیں اس لیے خلافت کا تذکرہ فرشتوں ہی سے فرمایا۔ کسی اور مخلوق سے ذکر نہیں فرمایا اس لیے کہ اور سب فرشتوں ہی کے ماتحت ہیں۔ حقیقت ملائکہ : اہل اسلام کے منزدیک ملائکہ اللہ کے محترم بندے ہیں جو نور سے پیدا کئے گئے ہیں (اشارۃ الی ما اخرجہ مسلم عن عائشۃ مرفوعا خلقت الملائکۃ من نور 12 فتح الباری ص 216 ج 6) معاصی سے معصوم۔ خطا اور نسیان سے محفوظ ہیں۔ لا یعصون اللہ ما امرھم ویفلعون مایؤمرون۔ کھانے اور پینے سے پاک، تذکیر وتانیث سے منزہ اور مبرا ہیں۔ (قال الحافظ وفی قصۃ الملائکۃ مع ابراھیم وسارۃ مایؤید انھم لا یاکلون 12 فتح الباری ص 217 ج 6) قرآن میں ملائکہ کے حق میں ضمیر مذکر کا استعمال محض تشریف و تکریم کی وجہ سے ہے مذکر ہونے کی وجہ سے نہیں جیسے حق جل وعلاء کے لیے ضمیر مذکر کا استعمال محض عظمت واجلال کی وجہ سے ہے جس طرح بعض انسانوں کو حق تعالیٰ نے اپنی رسالت اور پیمبری کے لیے برگزیدہ فرمایا ہے۔ اسی طرح بعض ملائکہ کو رسالت پیمبری کے لیے برگزیدہ فرمایا ہے کما قال تعالیٰ اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس۔ فرشتوں نے انی جاعل فی الارض خلیفۃ سے یہ سمجھا کہ جب وہ خلیفہ زمین سے پیدا ہوگا تو اس میں لذات سفلیہ سے منتفع ہونے کی خواہش اس کی جبلت میں مرکوز ہوگی۔ جب ان لذتوں کی اس کو ضرورت ہوگی تو قوت شہویہ جوش میں آئے گی اور جو شخص ان لذات اور منافع میں اس کی مزاحمت کرے گا تو قوت غضبیہ جوش میں آئے گی۔ اور مدافعت کے لیے جنت وجدال اور قتل و قتال کی نوبت آئے گی۔ اس لیے فرشتوں کو یہ شبہ ہوا کہ زمین کی عمارت اور اصلاح کے لیے ایسے شخص کو خلیفہ بنانا بظاہر خلاف حکمت معلوم ہوتا ہے۔ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک۔ فرشتوں نے کسی اعتراض کے طور پر نہیں بلکہ محض حکمت دریافت کرنے کے لیے بارگاہ خداوندی میں یہ عرض کیا کہ زمین میں آپ اس شخص کو خلیفہ بناتے ہیں جو زمین میں فساد اور خنریزی کرے حالانکہ ہم سب ہر لمحہ تیری ذات پاک کی ستائش کے ساتھ مسلسل تسبیح کرتے ہیں تاکہ حق تیری ذات اور صفات کا ادا ہو اور نیز ہم خاص تیرے لیے تقدیس کرتے ہیں۔ یعنی ہم تیرے افعال کو اس بات سے پاک جانتے ہیں کہ تیرا کوئی فعل معاذ اللہ خلاف حکمت ہو یا معاذ اللہ اس میں سفہ اور عبث کا شائبہ ہو۔ بخلاف بنی آدم کے اگر وہ تیری تسبیح اور تقدیس بھی کریں گے تو بسا اوقات ریا اور حرص وہوا کی آمیزش اور شرکت سے پاک نہ ہوں گی۔ رہا یہ سوال کہ ملائکہ کو بنی آدم کا مفسد اور خون ریز ہونا کیسے معلوم ہوا۔ سو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ اور دیگر حضرات صحابہ سے مروی ہے کہ جب الہ نے یہ فرمایا انی جاعل فی الارض خلیفۃ تو فرشتوں نے یہ عرض کیا کہ وہ خلیفہ کیسا ہوگا۔ تو اللہ رب العزت نے یہ فرمایا کہ اس خلیفہ کے ذریت ہوگی اور زمین میں فساد کرے گی۔ اور ایک دوسرے پر حسد کرے گی۔ اور ایک دوسرے کو قتل کرے گی (تفسیر ابن کثیر) اس پر ملائکہ نے یہ سوال کیا۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھا الخ اور ملائکہ کا یہ سوال محض حکمت دریافت کرنے کے لیے تھا کہ فساد اور خون ریزی کرنے والوں کو پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے۔ حاشا بطور اعتراض نہ تھا۔ اس لیے ملائکہ کی تو یہ شان ہے۔ کما قال تعالیٰ لا یسبقونہ بالقول۔ یعنی بغیر اذن الٰہی کے کوئی بات بھی نہیں کہہ سکتے۔ وقال تعالیٰ بل عباد مکرمون۔ خدا کے محترم بندے ہیں۔ مقصد فقط یہ تھا کہ اس قسم کی مخلوق پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے۔ اگر عبادت اور بندگی مقصود ہے تو ہم اس کے لیے حاضر ہیں۔ ہر وقت تیری اطاعت اور بندگی میں سرشار ہیں اور تیری معصیت اور نافرمانی سے بالکلیہ پاک اور بری ہیں۔ اس لیے حق جل شانہ نے جواب ارشاد فرمایا۔ انی اعلم مالا تعلمون۔ تحقیق میں جانتا ہوں وہ جو تم نہیں جانتے یعنی تم کو معلوم نہیں کہ کہ منصب خلافت کے لیے ایسی ہی حقیقت جامعہ مناسب ہے جو جسمانیت اور روحانیت دونوں کی جامع ہو اور قوت عقلیہ کے ساتھ اس میں قوت شہویہ اور غضبیہ بھی ہو۔ جس نوع کا مزاج ان مختلف قوی سے مرکب ہوگا وہی عالم کے انتظام اور تدبیر و تصرف پر قادر ہوگا۔ کائنات ارضیہ کے حقائق اور منافع کو بخوبی سمجھے گا۔ اور طرح طرح کی صنعتیں ایجاد کرے گا۔ تاکہ منافع ارضیہ قوت سے نکل کر فعلیت میں آجائیں اور ظاہر ہے کہ فرشتوں میں یہ استعداد اور صلاحیت نہیں۔ ہر کسے را بہر کارے ساختند جاننا چاہئے کہ ہر انسان میں دو قوتیں ہیں ایک تو قوت شہویہ۔ جس سے زنا وغیرہ صادر ہوتا ہے جس کو فرشتوں نے من یفسد فیھا سے تعبیر کیا ہے اور دوسری قوت غضبیہ جس سے قتل اور ضرب اور خونریزی ظہور میں آتی ہے۔ جس کو ملائکہ نے ویسفک الدماء سے تعبیر کیا ہے۔ فرشتوں نے انسان کے یہ دو عیب ذکر کرکے اشارۃ ان دونوں عیبوں کی اپنے سے نفی کی اس لیے کہ من یفسد فیھا کے مقابلہ میں ونحن نسبح بحمدک کہا اور یسفک الدماء کے مقابلہ میں وہ نقدس لک کہا۔ اس میں شک نہیں کہ قوت شہویہ اور قوت غضبیہ بہت سے مفاسد کا سرچشمہ ہیں لیکن ان دو قوتوں میں منافع اور مصالح اور فوائد بھی نہایت عجیب و غریب ہیں۔ ملائکہ نے قوت شہویہ اور غضبیہ کے مفاسد کا تو ذکر کیا لیکن ان دونوں قوتوں کے منافع اور فوائد سے ان کو ذہول ہوا۔ فرشتوں کا خیال اس طرف نہ گیا کہ یہی قوت شہویہ جب اس کا رخ خداوند ذوالجلال کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تو اس سے وہ ثمرات ونتائج ظہور میں آتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر فرشتے بھی عشعش کرنے لگتے ہیں یعنی غلبۂ عشق خداوندی اور اس کی محبت کا جوش اور ولولہ خدا کی محبت اور اس کے عشق میں قلب کا بیچین اور بیتاب رہنا یہ وہ نعمت ہے کہ جس پر ملائک بھی رشک کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ملائک میں قوت شہویہ نہ ہونے کی وجہ سے عشق کا مادہ نہیں اطاعت میں اگر فرشتوں کا پلہ بھاری ہے تو عشق اور محبت میں آدم اور بنی آدم کا پلہ بھاری ہے اور علی ہذا جب قوت غضبیہ کو کارخانۂ خداوندی میں صرف کیا جاتا ہے تو اس سے بھی عجیب و غریب نتائج وثمرات ظاہر ہوتے ہیں یعنی خدا کی راہ میں جانبازی اور سرفروشی اور اس کے دشمنوں سے جہاد و قتال۔ نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی یہی وجہ ہے کہ صحابۂ بدریین کی طرح وہ ملائکہ جو جنگ بدر میں شریک ہوئے ان ملائکہ سے افضل ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے جیسا کہ بخاری میں مذکور ہے اور خدا کی راہ میں شہید ہوجانا یہ ایسی عظیم نعمت ہے کہ ملائکہ اس سے با لکلیہ محروم ہیں۔ نیز جب تک قوت عقلیہ کے ساتھ قوت شہویہ اور قوت غضبیہ نہ ہو تو تنہا قوت عقلیہ تجارت وزراعت اور سنعت وحرفت اور تمدن و معاشرت کے اصول اور قوانین مرتب نہیں کرسکتی جن پر تمام کارخانۂ عالم کا دارومدار ہے۔ لہذا خلیفہ کے لیے یہ ضروری ہوا کہ قوت عقلیہ کے ساتھ قوت غضبیہ اور قوت شہویہ کا بھی حامل ہو۔ نیز اگر جہاں میں برائیاں اور قباحتیں موجود نہ ہوں تو بعثت رسل اور انزال کتب وشرائع و احکام واوامر ونواھی سب معطل و بیکار ہوجائیں۔ در کار خانۂ عشق از کفر ناگزیر است دوزخ کر ا بسوز دگر بولہب نباشد شیخ اکبر قدس اللہ سرہ فصوص الحکم میں فرماتے ہیں کہ ملائکہ نے علی الاطلاق تسبیح و تقدیس کا دعویٰ کیا حالانکہ ان کی تسبیح و تقدیس کا دعویٰ کیا حالانکہ ان کی تسبیح و تقدیس فقط ان اسماء وصفات کے ساتھ مقید اور مخصوص ہے جن اسماء وصفات کا ان کو علم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا سے معلوم ہوتا ہے مگر ملائکہ کو یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ شانہ کے ایسے اسماء بھی ہیں کہ وہاں تک ملائکہ کے علم کی رسائی نہیں اور اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان اسماء وصفات کا علم عطاء فرمایا خصوصا ً وہ اسماء وصفات جن کا تعلق عالم اجسام سے ہے اس لیے ملائکہ کی تسبیح و تقدیس بنی آدم کی تسبیح کے لحاظ سے مطلق نہیں بلکہ مقید ہے۔ انتہی کلامہ۔ علاوہ ازیں بنی آدم کی تسبیح و تقدیس، شیطان اور نفس، قوۃ شہویہ اور قوۃ غضبیہ کے معارضہ اور مقابلہ کی وجہ سے زیادہ اکمل اور بہتر ہے۔ بخلاف ملائکہ کے کہ ان کی تسبیح و تقدیس بمنزلہ سانس کے اضطراری ہے اور اختیاری تسبیح وتحمید اضطراری تسبیح وتحمید سے بہتر ہے۔ جواب تفصیلی بعد جواب اجمالی گزشتہ آیات انی اعلم مالا تعلمون۔ میں فرشتوں کے شبہ کا اجمالی جواب تھا۔ اب آئندہ تفصیلی جواب ارشاد فرماتے ہیں جس میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیت اور زیادتی بیان فرمائی تاکہ فرشتوں پر ان کی فوقیت اور افضلیت ثابت ہو اور یہ ظاہر ہوجائے کہ جو شخص علوی اور سفلی کائنات کے اسماء وصفات سے وقف ہو وہی مستحق خلافت ہے یا یوں کہو کہ پہلا جواب حاکمانہ تھا اور یہ جواب حکیمانہ ہے۔ وعلم آدم الاسماء کلھا الخ اور سکھائے اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام مع ان کے خواص اور آثار کے اس لیے کہ جب تک کہ عالم کی تمام چیزوں کے نام اور ان کی حقیقت اور اوصاف اور خواص اور آثار اور طریقۂ استعمال معلوم نہ ہو تو ان کا انتظام اور ان میں تصرف کیسے کرسکتا ہے۔ محض نام جاننے سے نہ تو حضرت آدم کی فوقیت ثابت ہوگی اور نہ محض نام جاننے سے انتظام ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ قیامت کے روز اول اہل ایمان کی شفاعت کے لیے حضرت آدم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ اور یہ کہیں گے۔ انت ابو الناس خلقک اللہ بیدہ واسجد لک ملائکتہ وعلمک اسماء کل شیئ آپ سب انسانوں کے باپ ہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے آپ کو پیدا کیا اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے فرشتوں کو بھی بعض چیزوں کے نام کا علم تھا مگر ان کا علم انہیں چیزوں میں منحصر تھا جن کی خدمت پر وہ مامور تھے دوسری چیزوں سے ان کو کوئی تعلق اور سروکار نہ تھا۔ خلافت کے لیے علم تام اور عام چاہئے۔ بخلاف حضرت آدم کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم تام اور عام عطا فرمایا۔ مفردات اور مرکبات کے اسماء اور خواص اور آثار بتلائے صنعتوں اور حرفتوں کا علم عطا فرمایا۔ حفظان صحت اور معالجۂ امراض کے اصول وقواعد بتلائے۔ اور ظاہر ہے کہ فرشتوں کو ان چیزوں کا علم نہیں دیا گیا۔ لہذا وہ خلافت کا کام کیسے انجام دے سکتے ہیں اس لیے حضرت آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے اور اسی آیت میں وعلم ادم الاسماء کے بعد جو لفظ کلھا بڑھایا گیا وہ اسی عموم کی تاکید ہے کیونکہ آدم اور فرشتوں میں یہی مابہ الامتیاز ہے کہ فرشتوں کو تمام اسماء کا علم نہیں اور حضرت آدم کو اسماء کی تعلیم بذریعہ الہام کے تھی کہ ان کے دل میں ڈال دیا کہ فلاں چیز کا فلانا نام ہے اور فلانی چیز کا فلانا نام ہے۔ اور اس تعلیم میں کلمہ اور کلام اور صوت اور حرف درمیان میں نہ تھی بلا واسطہ حرف اور صوت کے اور بغیر کلمہ اور کلام ان کے دل میں ڈالا اور یہ تعیم بواسطہ الفاظ کے نہ تھی بلکہ بطریق القاء فی القب تھی۔ جیسے وعلمناہ صنعۃ لبوس لکم میں تعلیم بواسطہ الفاظ کے نہ تھی۔ بلکہ القاء فی القلب کے ذریعہ سے تھی کہ ان کے دل میں زرہ بنانے کا طریقہ ڈال دیا۔ پھر جن چیزوں کے نام اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سکھائے ان چیزوں کی تصویروں کو فرشتوں پر پیش کیا پھر فرمایا کہ تم مجھے ان چیزوں کے نام ٹھیک ٹھیک بتاؤ اگر تم اس بارے میں سچے ہو۔ کہ تم میں خلافت کی صلاحیت ہے اور تم خلافت کی خدمت انجام دے سکتے ہو۔ اس لیے کہ جب تک کہ حقائقِ اشیاء اور ان کی صفات اور خواص اور آثار اور طریقۂ استعمال کا علم نہ اس وقت تک ان میں تصرف اور ان کا انتظام ناممکن ہے فرشتوں نے عرض کیا تو پاک اور منزہ ہے ہم کو کسی شئی کا بھی علم نہیں مگر فقط اس چیز کا جس کا تو نے ہم کو جتنا علم عطاء کردیا بیشک حقیقت میں تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے تو اس سے منزہ ہے کہ تیرا کوئی کام عبث اور خلاف حکمت ہو ہمارا علم ہماری استعداد کے مطابق ہے اور آدم کا علم ان کی استعداد کے مطابق ہے اور استعدادوں اور صلاحیتوں کا تفاوت اور اختلاف تیرے علم اور حکمت پر مبنی ہے آپ مالک مطلق ہیں جس میں جو استعداد چاہیں وہ پیدا کردیں فرشتوں پر جب یہ بات واضح ہوگئی کہ آدم (علیہ السلام) خلافت کی استعداد اور صلاحیت میں ہم سے بہتر اور برتر ہیں تو بصد عجز وزاری بارگاہ خداوندی میں یہ بولے۔ سبحنک لا علم لنا الا ماعلمتنا انک انت العلیم الحکیم۔ فائدہ : جاننا چاہئے کہ عرضہم کی ضمیر اسماء کی طرف باعتبار مسمیات کے راجع ہے ظاہر کا مقتضی یہ تھا کہ ضمیر مؤنث کی لاتے اور یوں کہتے ثم عرضھا جیسا کہ ایک قراءت میں ثم عرضھن ضمیر مؤنث کے ساتھ آیا ہے لیکن بجائے ضمیر مؤنث کے ذوی العقول کی ضمیر لائے یعنی ھم کی ضمیر لائے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ عرض باعتبار وجود خارجی اور جسامت ظاہری کے نہ تھا بلکہ باعتبار وجود روحی اور ملکوتی یا بطور وجود مثالی کے تھا اور اس وجود کے اعتبار سے تمام مخلوقات عاقل اور مدرک ہیں اور تذکیر وتانیث سے مبرا ہیں۔ حق جل شانہ نے فرمایا اے آدم تم فرشتوں کو ان تمام چیزوں کے نام مع خواص اور آثار کے بتلا دو کیونکہ اے آدم ! ہم نے تم کو ادیم ارض (یعنی روئے زمین) کی تمام اقسام کے مٹیوں سے ملا کر اور مختلف قسم کے پانیوں میں گوندھ کر بنایا ہے (اور اسی وجہ سے کہ حضرت آدم کو تمام روئے زمین کی مٹیوں سے بنایا گیا ہے ان کی اولاد میں کوئی سرخ رنگ ہے اور کوئی گورا اور کوئی بین بین اور کوئی نرم خو اور کوئی ترشرو اور کوئی نیک طینت اور کوئی بد طینت جیسا کہ مسند احمد اور ابو داود اور ترمذی کی ایک حدیث میں آیا ہے ) اور پھریرا بنا کر تم میں روح پھونکی ہے جو جنس ملائک سے ہے اس لیے تم میں یہ استعداد اور صلاحیت ہے کہ تم ان چیزوں کے نام اور خواص اور آثار بتلا سکو اس لیے کہ ساری استعدادیں اور صلاحیتیں تم میں جمع ہیں۔ جسمانی حیثیت سے تم زمینی ہو اور روحانی حیثیت سے تم علوی اس لیے تم علوی اور سفلی چیزوں کو جس قدر سمجھ سکتے ہو دوسرا ویسا نہیں سمجھ سکتا۔ غرض یہ کہ تمہارے خمیر میں زمینی اور آسمانی دونوں قسم کی استعدادیں اور صلاحیتیں علی وجہ الکمال موجود ہیں۔ پس ان چیزوں کے نام مع خواص اور آثار کے فرشتوں کے سامنے بیان کرو تاکہ تمہارا فضل و کمال ظاہر ہو اور تمہاری فطرت میں جو عجیب و غریب استعدادیں اور صلاحیتیں ہم نے ودیعت کر رکھی ہیں وہ بروئے کار آجایں اور فرشتوں پر یہ امر منکشف ہوجائے کہ یہ استعداد بشر کے ساتھ مخصوص ہے ملائکہ کو میسر نہیں پس جب بتائے آدم نے ان تمام چیزوں کے نام جو بیشمار اور بےانتہا تھیں۔ اور اس بیان میں کوئی غلطی بھی نہیں کی تو فرشتے حضرت آدم کے اس کمال علمی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تو اس وقت اللہ جل جلالہ نے فرشتوں سے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے پہلے ہی کہا نہ تھا کہ میں تمام آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو خوب جانتا ہوں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ انی اعلم مالا تعلمون۔ اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اس کو بھی خوب جانتا ہوں۔ خلاصہ یہ کہ خلافت کے لیے ایسے حاوی اور کلی علم کی ضرورت ہے بغیر ایسے علم کے خلافت ناممکن ہے۔ فرشتوں کا علم حاوی اور کلی نہیں، جس خدمت پر وہ مامور ہیں فقط اسی کے قواعد اور ضوابط ان کو معلوم ہیں کسی دوسری خدمت اور نظام کا ان کو علم نہیں۔ اور علی ہذا ملائکہ کی قدرت ومشیت ان کے اختیار اور مرضٰ کے تابع نہیں بلکہ حق جل شانہ کی مرضی کے تابع ہے بخلاف انسان کے کہ اس کی قدرت و مشیت خود اس کی مرضی کے تابع ہے انسان ہی کا علم اور قدرت حق تعالیٰ شانہ کے علم اور قدرت کا نمونہ ہے جو ضدین اور نقیضین سے متعلق ہوسکتا ہے۔ نیز بہت سی چیزوں کا علم محض عقل سے نہیں ہوسکتا جب تک قوت شہویہ اور غضبیہ عقل کی معین اور مددگار نہ ہو اس لیے ایسی چیزوں کا نام وہی بتلا سکتا ہے جس میں قوت عقلیہ اور ادراکیہ کے علاوہ قوت شہویہ اور غضبیہ بھی ہو اور علی ہذا جنات کا علم بھی ناقص ہے اور علاوہ ناقص ہونے کے غلبہ ناریت اور قوت خیالیہ کے غلبہ کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے اس لیے یہ خدمت ان کے سپرد نہیں کی جاسکتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب فرشتوں نے یہ عرض کیا کہ اتجعل فیھا من یفسد فیھا الخ تو حق تعالیٰ شانہ نے دو جواب ارشاد فرمائے ایک حاکمانہ اور ایک حکیمانہ۔ حاکمانہ جواب تو یہ فرمایا کہ انی اعلم مالا تعلمون " رموز مملکت خویش خسرواں دانند " اور حکیمانہ جواب یہ ارشاد فرمایا۔ وعلم ادم الاسماء کہ آدم (علیہ السلام) کو اشیاء کے تمام اوصاف اور خواص اور اسماء کی تعلیم دی تاکہ وہ ان اشیاء میں تصرف کرنے پر قادر ہوں اس سے حضرت آدم کا بمقابلہ ملائک فضل و کمال ظاہر ہوا۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں یہاں ایک شبہ ہوسکتا ہے وہ یہ کہ جو چیزیں آدم (علیہ السلام) کو بتلائیں اگر فرشتوں کو بھی بتلا دیتے تو وہ بھی اسی طرح بتلا سکتے یہ تو ایسا ہوا کہ دو طلبہ کو شریک امتحان کریں اور ایک کو خلوت میں جواب سکھلا دیں اور پھر امتحان لیں۔ جواب یہ ہے کہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو تنہائی میں اسماء وغیرہ بتلادئیے تھے اور جب یہ ثابت نہیں تو یہ بھی احتمال ہے کہ فرشتوں کے سامنے بھی بتلایا ہو اور یہی احتمال خدا تعالیٰ کے لطف کے اعتبار سے راجح ہے تو اب وہ مثال صحیح نہیں ہوسکتی ہے بلکہ اب اس کی مثال ایسی ہے کہ استاد نے اقلیدس کی کسی شکل کی دونوں طلبہ کے سامنے تقریر کی مگر امتاحان کے وقت ایک تو بوجہ مناسبت کے بتلا سکا اور دوسرا نہ بتلا سکا۔۔ کیونکہ علم کے لیے استعداد کی ضرورت ہے اور یہ استعداد حضرت آدم (علیہ السلام) ہی میں تھی۔ مثلاً بھوک کی حقیقت جبرئیل (علیہ السلام) نہیں سمجھ سکتے تو فرشتے باوجود سننے کے بھی اس لیے نہ بتلا سکے کہ ان میں اس کی استعداد نہ تھی۔ حق تعالیٰ شانہ نے اس امتحان سے یہ بتلا دیا کہ تم میں وہ استعداد نہیں اور وہی شرط تھی خلافت کی رہا یہ شبہ کہ جب آدم (علیہ السلام) نے ان کو بھی بتلا دیا تو وہ ضرور سمجھے ہونگے تو ان میں بھی استعداد ثابت ہوگئی مگر یہ اعتراض لغو ہے کیونکہ بتلانے کے لیے مخاطب کا سمجھنا لازمی نہیں۔ اس لیے انبا فرمایا۔ علم نہیں فرمایا۔ تعلیم کے معنی سمجھا دینے کے ہیں اور انباء کے معنی اخبار یعنی تقریر کردینے کے ہیں گو مخاطب نہ سمجھا ہو اور یہ استعداد خاصہ بشر کا ہے۔ اگر فرشتوں کو یہ استعداد عطاء کردی جائے تو فرشتے فرشتے نہ رہیں جیسے حس و حرکت خاصہ حیوان کا ہے اگر جماد میں یہ صفت پیدا فرمادیں تو جماد۔ جماد نہ رہے گا بلکہ حیوان بن جائیگا۔ لہذا اس سوال کا حاصل یہ ہوگا کہ فرشتوں کو بشر کیوں نہ بنادیا سو ظاہر ہے کہ یہ سوال بےمعنی ہے جواب اس کا ظاہر ہے کہ اس صورت میں فرشتوں کے پیدا کرنے میں جو حکمت ہے وہ معطل ہوجائے گی اور اگر یہ کہا جائے کہ اول ہی فرشتوں کو بشر بنا کر خلیفہ بنادیتے تو یہ مسئلہ تقدیر کا ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کو بشر کیوں نہیں بنایا اس کی نسبت صرف یہی کہا جائیگا۔ حدیث مطرب ومی گو ورا از دھر کمتر جو کہ کس نہ کشود ونکشاید بحکمت ایں معما را (ہذا کلہ ملخص من وعظ نفی الحرج پندرھواں وعظ از سلسلۂ تبلیغ) خلاصۂ کلام یہ کہ جب حضرت آدم کی فضیلت ظاہر ہوگئی تو فرشتوں کو ان کی تعظیم کا حکم ہوا چناچہ فرماتے ہیں۔
Top