Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 11
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَۚ
ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد قَرْنًا : گروہ اٰخَرِيْنَ : دوسرا
پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی
قصہ قوم عاد یا قوم ثمود قال اللہ تعالیٰ ثم انشانا من بعدھم قرنا اخرین .... الیٰ .... فبعدا للقوم الظلمین۔ (ربط) ان آیات میں بھی امم سابقہ قصہ بیان کرتے ہیں۔ مگر ان آیات میں اس بات کا ذکر نہیں کہ یہ کسی نبی اور کسی قوم کا ذکر ہے بعض کہتے ہیں کہ ہود (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ قوم ثمود (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر ہے۔ یہ قصے پہلے گزر چکے ہیں جن کے مطالب واضح ہیں، چناچہ فرماتے ہیں پھر ہم نے قوم نوح (علیہ السلام) کے بعد ابتلا اور آزمائش کے لیے دوسری قوم کو پیدا کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ قوم عاد مراد ہے اور بعض کہتے ہیں کہ قوم ثمود مراد ہے پھر ہم نے ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔ ہود (علیہ السلام) مراد ہیں یا صالح (علیہ السلام) مراد ہیں۔ اور بدیں حکم بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں پس کیا شرک کرکے تم کو ڈر نہیں کہ تم پر اللہ کا کوئی عذاب آجاوے، یہ تو اللہ کے رسول نے ان کو ہدایت اور نصیحت کی اب آگے ان کی قوم کا جواب مذکور ہوتا ہے اور ان کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی ملاقات یعنی حشر و نشر کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو دولت و ثروت دے کر دنیاوی زندگانی کے عیش و عشرت میں ایسا غرق کردیا تھا کہ اترانے لگے تھے۔ تو ان متکبرین نے اپنے رسول کی بات سن کر یہ کہا کہ نہیں ہے یہ شخص مگر تم ہی جیسا ایک آدمی ہے جس چیز سے تم کھاتے ہو اسی سے یہ کھاتا ہے اور جس سے تم پیتے ہو اسی سے یہ پیتا ہے یہ شخص تم سے کس بات میں بڑھا ہوا ہے جو نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتا ہے اور اگر تم اپنے جیسے آدمی کے مطیع اور فرمانبردار بن گئے تو ایسی حالت میں بلاشبہ تم بڑے گھاٹے میں رہو گے یہ ان کافروں کی حماقت تھی کہ آخر دنیا کے حاکم اور سردار بھی تو تمہاری ہی طرح کھاتے اور پیتے ہیں، پھر کیوں ان کی اطاعت کرتے ہو۔ اور اس سے بڑھ کر حماقت یہ کہ اپنے جیسے بشر کی اطاعت کو تو عیب جانا اور شجر اور حجر اور بت کی عبادت کو عیب نہ جانا جو اپنے سے مکھی کو بھی دفع نہیں کرسکتے۔ اپنے سے بدتر پتھروں کے بندے بننے میں تو عار نہ آئی اور بشر کو رسول ماننے سے عار آئی اور باجود آیات بینات کے دیکھنے کے دل ان کی اطاعت پر آمادہ نہ ہوا۔ یہ بات تو کافروں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق کہی کہ اپنے جیسے معمولی آدمی کو اپنا مخدوم اور مطاع بنا لینا بڑی ذلت ہے، اب آگے قیامت کے متعلق اپنا خیال ظاہر کرتے ہیں کہ کیا یہ پیغمبر تم کو اس کا وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈی ہوجاؤ گے تو تم حساب و کتاب کے لیے دوبارہ زندہ کرکے قبروں سے نکالے جاؤ گے بہت بعید ہے۔ بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم کو وعدہ دیا جا رہا ہے قیامت کا قائم ہونا اور مردوں کا قبروں سے اٹھنا بعید از عقل و امکان ہے جس کا وقوع کبھی نہیں ہوسکتا۔ نہیں ہے کوئی زندگی مگر یہی ہماری دنیاوی زندگی قدیم سے اسی طرح سلسلہ جاری ہے کہ ہم مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ ہمیشہ اسی طرح جاری رہے گا۔ اور ہم نہیں ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے قبروں سے اٹھائے جائیں یہ شخص تو کچھ بھی نہیں مگر ایک آدمی ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے یعنی یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور کہتا ہے کہ مرنے کے بعد آدمی دوبارہ زندہ ہوگا۔ یہ سب جھوٹ ہے اور ہم تو ہرگز اس بات کو ماننے والے نہیں اور ہمیں اس شخص کی خبر کا بالکل یقین نہیں۔ اس پر رسول نے کہا اے میرے پروردگار ان کی تکذیب اور عداوت کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ گھبراؤ نہیں۔ عنقریب یہ لوگ اپنے کفر اور تکذیب پر سخت نادم ہوں گے۔ ہم نے ان کو جو مہلت دی ہے وہ ذرا پوری ہوجائے۔ چناچہ جب وہ مہلت پوری ہوگئی تو ایک کرخت آواز نے ان کو وعدہ برحق کے موافق پکڑ لیا کہ جبریل امین (علیہ السلام) نے ایک سخت آواز دی جس سے ان کے دل اور جگر پھٹ گئے پس ہم نے ان کو خس و خاشاک کی طرح ریزہ ریزہ کردیا۔ پس پھٹکار ہو ظالموں پر۔ جس طرح سیلاب خس و خاشاک کو بہالے جاتا ہے، اسی طرح عاب الٰہی کا سیلاب ان کو بہا کرلے گیا اور اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے۔ فائدہ : فاخذتھم الصیحۃ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ قوم ثمود کا ہے اس لیے کہ صیحہ یعنی کرخت آواز اور چنگھاڑ سے وہی لوگ ہلاک کیے گئے۔ (واللہ اعلم)
Top