Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 31
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَۚ
ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد قَرْنًا : گروہ اٰخَرِيْنَ : دوسرا
پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی
31۔ 41:۔ پچھلی امتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں فرمایا ہے اس سے اور صحیح حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیشہ سے انبیاء کے فرمانبردار اکثر غریب لوگ ہوتے رہے ہیں اور مالدار لوگوں کو اپنے مال ومتاع اور اپنی سرداری کا ایک طرح کا غرور ہو کر وہی انبیاء سے جھگڑے کرتے رہے ہیں ہمیشہ سے یہ طریقہ جاری رہتے رہتے ایسا عام ہوگیا تھا کہ لوگ رسول وقت کے سچے نبی ہونے کی دلیل اس بات کو قرار دینے لگے تھے کہ اللہ کے رسول کو اور ان کے فرمانبرداروں کو تنگ دست نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ ایک غلط بات مشہور ہوگئی تھی ‘ کیونکہ صحیح بخاری میں ابوسفیان ؓ والی حدیث 1 ؎ جو ہے ‘ اس میں ہرقل نے جہاں اور نشانیاں آنحضرت ﷺ کو ابوسفیان ؓ سے پوچھی تھیں وہاں یہ بات بھی پوچھتی تھی کہ ان نبی کے دین میں غریب لوگ زیادہ آتے ہیں یا مالدار لوگ ‘ جب ابوسفیان ؓ نے کہا کہ ان نبی کے پیرو اکثر غریب لوگ ہیں تو ہرقل نے کہا کہ ہمیشہ سے غریب لوگ ہی انبیاء کے فرمانبردار ہوتے آئے ہیں ‘ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ انبیاء کے فرمانبردار قدیم سے غریب لوگ ہوتے آئے ہیں ‘ قریش کے مالداروں کا بھی یہی جھگڑا کئی جگہ قرآن میں آیا ہے کہ غریب مسلمان لوگوں کا نام دھرتے تھے اور آنحضرت ﷺ سے یہ کہتے تھے کہ ہم کو ان کنگال لوگوں کے ساتھ بھیٹھنے سے شرم آتی ہے کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے ہماری ہتک ہے ‘ اگر ہمارے لیے علیحدہ مجلس مقرر کردی جاوے تو ہم تمہاری نصیحت کی باتیں الگ آن کر سنیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے غریب دین دار بندے زیادہ پیارے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان مالدار مغروروں کی خواہش کے پورا کرنے سے منع فرمایا چناچہ سورة انعام میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اکثر مالدار لوگ دنیا میں آلودہ ہوجاتے ہیں اور دین سے ان کو ذرا غفلت اور بےپرواہی ہوجاتی ہے اس لیے ہمیشہ سے رسولوں کی فرمانبرداری کرنے میں جس طرح مالدار لوگ رسولوں کے وقت میں جھگڑے کرتے رہے ‘ اسی طرح فرما نبرداری اختیار کرنے کے بعد بھی امت کے مالدار لوگوں کی طرف سے دین پر قائم نہ رہنے کا کھٹکا رسولوں کو لگا رہتا تھا چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں ابو سعید خدری کی روایت 1 ؎ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ خوف مجھ کو اس بات کا ہے کہ میرے بعد میری امت کو فراغت ہو اور اس سے ان کے دین میں فتور پڑجائے ‘ آپ نے معجزہ کے طور پر جو کچھ فرمایا تھا ‘ خلافت بنی امیہ اور عباسیہ کے عہد میں وہی ہوا کہ مسلمانوں میں آپس کی خونریزیاں اور طرح طرح کے فتور پڑگئے ‘ اللہ تعالیٰ جس شخص کو دنیا کی فراغت دیوے اسے چاہیے کہ دنیا میں ایسا نہ پھنسے جس سے دین میں فتور پڑجاوے ‘ دنیا کے اس طرح کے پھنساوے سے بچنے کی غرض سے آنحضرت ﷺ صحابہ ؓ کو نئے نئے ڈھنگ سے حرص دنیا میں نہ پھنسنے اور تنگ دستی سے نہ اکتانے کی نصیحت فرماتے رہتے تھے چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں سہل بن سعد سے جو روایت 2 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے روبرو سے ایک مالدار شخص گزرا اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے مجلس کے موجودہ لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے نزدیک دنیا میں یہ کس رتبہ کا شخص ہے لوگوں نے کہا کہ یہ ایسا عزت دار مالدار شخص ہے کہ جہاں یہ شادی کرنی چاہے وہاں اس کی شادی ہوسکتی ہے ‘ جو سفارش کرے وہ سفارش اس کی قبول ہوسکتی ہے ‘ پھر ایک تنگ دست مسلمان تھوڑی دیر کے بعد آپ کے روبرو سے گزرا ‘ اسی طرح آپ نے ان لوگوں سے پوچھا ‘ لوگوں نے کہا یہ ایک تنگدست شخص ہے نہ اس کو کسی کی بیٹی مل سکتی ہے نہ اس کی سفارش کوئی سنتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس پہلے شخص سے یہ دوسرا شخص ہزار درجہ بہتر ہے ‘ اس قصہ میں اور اس سے اوپر کے قصہ میں قوم کے مالدار ‘ سردار لوگوں کی سرکشی اور شرارت کا جو ذکر ہے اوپر کی روایتوں سے اس کا یہ سبب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ مالدار سردار لوگ اپنی مالداری اور سرداری کے غرور میں ہمیشہ سے قوم کے لوگوں کو مخالفت سکھاتے رہے اسی واسطے اللہ کے رسول ﷺ نے غریب شخص کو مالدار شخص سے ہزار درجہ بہتر فرمایا ‘ یہاں پچھلے قصوں کو مختصر طور پر بیان فرمایا ہے اس لیے سورة الاعراف اور سورة ہود کی طرح یہاں سلسلہ وار قوم نوح کے بعد قوم عاد کا قصہ نہیں ہے بلکہ قوم نوح کے بعد یہ قوم ثمود کا قصہ ہے جن کی ہلاکت چنگھاڑ کے صدمہ سے ہوئی ہے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قوم نوح اور قوم عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو پیدا کر کے ان کی ہدایت کے لیے صالح (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو وہی نصیحت کی ‘ جو نصیحت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کی تھی ‘ صالح (علیہ السلام) کی نصیحت سن کر قوم کے مالدار سردار منکر شریعت لوگوں سے کہا کہ صالح ہم تم جیسے آدمی ہیں ‘ اور کھاتے پیتے ہیں ‘ ان کا وہی حال ہے جو ہمارا تمہارا ہے ‘ اپنی قدیمی سرداری چھوڑ کر ان کو سردار بنانا بڑے گھاٹے کی بات ہے مرنے کے بعد دوبارہ جینے اور نیک وبد کی جزا و سزا کا جو ڈراوا صالح دیتے ہیں یہ ایک سمجھ سے باہر بات ہے ‘ دنیا تو یونہی چل رہی ہے کہ بڈھے مرتے ہیں اور ان کی نسل کے بچے پھر بڈھے ہوجاتے ہیں کون سا مرا ہوا بڈھا دوبارہ زندہ ہوا ہے جو ہم دوبارہ زندہ ہوں گے یہ دوبارہ زندہ ہونے کی سمجھ سے باہر ایک بات صالح ( علیہ السلام) نے اپنی طرف سے گھڑی ہے زبردستی اور کو اللہ کا حکم ٹھہرا لیا ہے ہم تو صالح کی کوئی بات نہیں مانتے حاصل کلام یہ ہے کہ جب اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی ان لوگوں نے یہ سرکشی کی باتیں نہیں چھوڑیں اور اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا تو صالح (علیہ السلام) نے مدد غیبی کی دعا اور ان کی دعا قبول ہو کر یہ جواب ملا کہ اب تھوڑے دنوں میں ان لوگوں کے پچھتانے کا وقت آتا ہے پھر اس وعدہ کا ظہور یہ ہوا کہ اونٹنی کی ہلاکت کے تین روز کے بعد ایک سخت چنگھاڑ کے صدمہ سے یہ لوگ ہلاک ہوگئے ‘ عشاء اس کوڑے کرکٹ کو کہتے کہیں جو پانی کے ریلے میں بہہ کر کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ پانی کے ریلے میں کوڑے کرکٹ کی طرف یہ لوگ بالکل بےپتہ ہوگئے ‘ آخر کو فرمایا ‘ اس طرح کے ظالم لوگ اللہ کی رحمت سے ایسے ہی دور پڑجاتے ہیں قوم ثمود کو ظالم فرمانے کا بھی وہی مطلب ہے جو قوم نوح کے قصہ میں صحیح مسلم کی ابوذر ؓ کی روایت سے اوپر بیان کیا گیا۔ (1 ؎ صحیح بخاری ‘ باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہ ﷺ الخ۔ ) (1 ؎ مشکوٰۃ ‘ کتاب الرقاق ص 439 ) (2 ؎ مشکوٰۃ ص 446۔ باب فضل الفقراء وما کان من عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
Top