Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ : اور شاعر (جمع يَتَّبِعُهُمُ : ان کی پیروی کرتے ہیں الْغَاوٗنَ : گمراہ لوگ
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں
ابطال شاعریت کفار آنحضرت ﷺ کو کبھی کاہن بتاتے اور کبھی شاعر بتاتے۔ گزشتہ آیات میں آپ کے کاہن ہونے کی تردید کی اب آئندہ آیت میں آپ کے شاعر ہونے کی تردید کرتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ قرآن کو شعر کہنا اور حضور پر نور ﷺ کو شاعر کہنا مشرکین کی کھلی ہٹ دھرمی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور شاعروں کی پیروی کرتے ہیں۔ گمراہ لوگ جو خیالی اور نفسانی چیزوں کے دلدادہ ہوتے ہیں برخلاف محمد رسول اللہ ﷺ کے پیروی کرنے والوں کے، کہ وہ نہایت متقی اور پرہیزگار ہیں اور آخرت کے طلبگار اور دنیا سے بیزار ہیں۔ پس اگر محمد ﷺ شاعر ہوتے اور شاعروں کی طرح نفسانی اور خیالی باتیں کیا کرتے تو آپ ﷺ کے پیروی کرنے والے فسق وفجور سے بیزار نہ ہوتے پس معلوم ہوا کہ آپ شاعر نہیں اس لئے کہ آپ کلام ہادیانہ اور ناصحانہ ہے اور آپ ﷺ کے پیرو آخرت کے طلبگار ہیں اور فسق وفجور سے نفور اور بیزار ہیں۔ اے دیکھنے والے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ یہ شاعر لوگ خیالی مضمون کے ہر جنگل میں حیران و سرگرداں ٹکڑیں مارتے پھرتے رہتے ہیں کبھی مدح اور کبھی قدح اور کبھی ہجو اور کبھی خوشامد اور کبھی عشق بازی اور ہر ایک میں جھوٹ اور مبالغہ کسی کی تعریف پر آئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور جس کی برائی پر آئے اس میں دنیا بھر کے عیب ثابت کر دئیے۔ ہر وقت بیابان خیال میں گھومتے اور جھومتے رہتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ محفل گرم ہوجائے اور تھوڑی دیر کے لئے لوگوں کی زبان پر واہ واہ آجائے۔ غرض یہ کہ انواع کذب ودروغ میں کوئی نوع ایسے نہیں چھوڑتے جس میں نہ گھستے ہوں۔ جھوٹ کی گھاٹیوں میں سے ہر گھاٹی میں داخل ہوتے ہیں۔ فی کل واد یھیمون۔ کا یہی مطلب ہے کہ فحش اور بےحیائی اور باطل اور بیہودگی کی ہر وادی میں حیران اور سرگرداں پھرتے ہیں اور اسی لئے شاعر لوگ زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں یعنی اکثر اقوال میں جھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ بسا اوقات شعرا اپنے اشعار میں تعلی کے طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو واقعہ میں اس سے صادر نہیں ہوتیں چناچہ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کسی کے پیٹ کا پیپ سے بھر کر خراب ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا جائے۔ مقصود یہ ہے کہ یہ قرآن کلام الٰہی ہے اور جس پر یہ قرآن نازل ہوا ہے وہ اللہ کا رسول ہے نہ کاہن ہے اور نہ شاعر ہے کیونکہ آپ حال کاہنوں اور شاعروں کے بالکل خلاف ہے۔ کاہن تو مکار اور بدکار ہوتے ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں اور دروغ گو اور بدکار ہوتے ہیں جن کی پیروی کرنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر وادی خیال میں حیران اور سر گرداں ہوتے ہیں جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ قرآن از قبیل شعرواشعار نہیں کیونکہ شعرا کا کام مبالغہ اور افراط وتفریط ہے جس کو اصلاح اخلاق و اعمال سے مناسبت نہیں اور اس وحی الٰہی میں ہدایت اور اصلاح اخلاق و اعمال بروجہ اتم واکمل مرکوز ہے۔ حکایت محمد بن اسحاق (رح) اور محمد بن سعد (رح) نے کتاب الطبقات میں ذکر کیا ہے کہ امیر المومنین فاروق اعظم ؓ نے نعمان بن عدی ؓ کو صوبہ بصرہ کے ضلع میسان کا عامل مقرر کر کے بھیجا اتفاق سے نعمان ضی اللہ عنہ شاعر تھے شعر کہا کرتے تھے انہوں نے یہ شعر کہے۔ الاھل اتی الحسناء ان خلیلھا بمیسان یسقی فی زجاج وحنتم کیا اس حسینہ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ اس کا دوست مقام میسان میں رہتا ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ اس کو شیشہ میں اور سبنہ کوزے میں شراب پلائی جاتی ہے۔ اذا شئت غنتنی دھاقین قریۃ ورقاصۃ تحثوا علی کل مبسم جب میں چاہتا ہوں تو بستی کی عورتیں مجھے گانا سناتی ہیں اور ایک رقاصہ رقص کرتی ہے اور اس رقاصہ کے ناچنے کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ہر ایک منہ پر خاک ڈالتی ہے۔ فان کنت ندمانی فبا لاکبر اسقنی ولا تسقنی بالاصغر المتثلم پس اگر تو میرا ندیم اور شراب میں ہم نشین بنتا ہے تو مجھ کو بڑے پیالہ سے شراب پلا اور چھوٹے پیالا سے جس میں کوئی رخنہ پڑا ہوا ہو شراب نہ پلا۔ لعل امیر المومنی یسوء ہ تناد منا بالجوسق المتھدم مجھے ڈر ہے کہ شاید امیر المومنین عمر ؓ کو گری پڑی جھونپڑی میں ہماری یہ ہم نشینی ناگوار گذرے۔ اتفاق سے یہ شعر فاروق اعظم ؓ کو پہنچ گئے سنتے ہیں فرمایا ای واللہ انہ لتسؤنی ومن لقیہ فلیخبرہ انی قد عزلتہ۔ ہاں خدا کی قسم یہ بات مجھے بری معلوم ہوئی اور جو شخص اس سے ملے تو اسے خبر کر دے کہ میں نے اس کو معزول کردیا اور ایک فرمان اس کے نام جاری کیا وہ یہ تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حم تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الہ الا ھو الیہ المصیر۔ اما بعد فقد بلغنی قولک۔ لعل امیر المومنین یسوء ہ تنا ومنا بالجوسق المتھدم وایم اللہ انہ یسؤنی وقد عزلتک۔ انتھی ان آیات کے لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ مجھے تیرا یہ قول پہنچا لعل امیر ال مومنین یسؤہ خدا کی قسم مجھے تیرا یہ قول ناگوار گزرا اور میں نے تجھے معزول کیا۔ بعد ازاں نعمان بن عدی ؓ حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر ؓ نے اس کو اس شعر پر سخت ملامت کی۔ نعمان بن عدی ؓ نے عذر کیا اور عرض کیا کہ قسم ہے خدا کی۔ میں نے کوئی قطرہ شراب کا نہیں پیا اور یہ شعر بطور لغو میری زبان سے نکل گیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میرا گمان بھی یہی ہے لیکن واللہ اس کے بعد میرا عامل اور حاکم نہیں بن سکتا جبکہ تو کہہ چکا (تفسیر ابن کثیر ص 354 ج 3) مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس قسم کے بیباکانہ شعر کی وجہ سے اس کو عہدہ سے معزول تو کردیا۔ لیکن یہ ثابت نہیں کہ ان پر حد شراب جاری کی یا نہیں حالانکہ اشعار میں شراب خوری کا اقرار موجود ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اسی آیت میں شعراء کے متعلق یہ آیا ہے۔ وانہم یقولون ما لا یفعلون۔ کہ شعرا اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں کہ جو کرتے نہیں اس لئے حضرت عمر ؓ نے ان پر حد نہیں لگائی فقط ملامت کی اور ان کو معزول کردیا۔ شان نزول جب یہ آیت والشعراء یتبعہم الغاون۔ نازل ہوئی تو حسان بن ثابت ؓ اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ اور کعب بن مالک ؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ والشعراء یتبہم الغاون۔ اور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے تو کیا ہم بھی اس عموم میں داخل ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آئندہ آیت یعنی الا الذین امنوا وعملوا الصالحات۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلا دیا کہ گزشتہ آیت کے عموم سے وہ شاعر مستثنی ہیں جو ایمان لائے اور نیک کام کئے چناچہ فرماتے ہیں کہ گزشتہ آیت میں جو حالت بیان کی گئی وہ حالت شعرا کفار بدکردار کی ہے اور اس سے وہ شاعر مستثنیٰ ہیں کہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالحہ کئے وہ ہر وادی خیال میں نہیں گھومتے اور نہ ان کا قول ان کے فعل کے خلاف ہوتا ہے اور انہوں نے اللہ کو کثرت سے یاد کیا یعنی اپنے اشعار میں اللہ کی عظمت اور جلال کو ذکر کیا اور آخرت کو یاد کیا اور اگر اپنے اشعار میں کسی کی ہجو کی تو ذاتی عداوت کی بنا پر نہیں کی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دشمنان اسلام سے بدلہ لیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا یعنی کفار نے جو اسلام اور مسلمانوں اور اللہ اور اس کے رسول کی ہجو کی تھی اس کا جواب دیا اور ظالم سے بدلہ لینا عقلا وشرعا جائز ہے اس لئے اس قسم کے شعرا اسلام حکم سابق سے مستثنیٰ ہیں چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے ان شعرا اسلام پر اس کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ وہ تم ہو یعنی اس آیت میں جن مومنین صالحین اور ذاکرین اور منتصرین کا اللہ تعالیٰ نے استثناء فرمایا اس کے مصداق تم ہو۔ نہ تم گمراہ ہو اور نہ گمراہوں کے پیرو ہو بلکہ مظلوم ہو تم نے ظالموں سے اپنا انتقام لیا ہے اور عنقریب یہ ظالم جو آنحضرت ﷺ کی طرف شعر اور کہانت کی نسبت کرتے ہیں۔ جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ان کا کیا ٹھکانہ ہے یعنی عنقریب ان کو اپنے ظلم وستم کا انجام معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے اللہ کے رسول اور اس کے ماننے والوں پر کیا ظلم کیا ان ظالموں کا ٹھکانہ آتش دوزخ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ لطائف ومعارف شروع سورت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت و رسالت کے اثبات کے لئے حقانیت قرآن کا ذکر فرمایا جو آپ کی نبوت و رسالت کی سب سے روشن دلیل ہے اور پھر آپ کی تسلی کے لئے اور منکرین نبوت کی تہدید کے لئے سات پیغمبروں کے قصے ذکر فرمائے اب خاتمہ سورت پر اسی سابق مضمون کی طرف عود فرماتے ہیں اور قرآن کریم کی حقانیت کو بیان کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو بواسطہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ کے قلب مبارک پر نازل کی گئی پھر اس کی حقانیت پر یہ دلیل بیان فرمائی کہ علماء اہل کتاب اس کتاب کی حقیقت کو خوب اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں اس کو خوب معلوم ہے کہ اس کتاب کے نزول کا ذکر زبر اولین یعنی انبیاء سابقین کے صحیفوں میں موجود ہے کہ نبی آخر الزمان پر ایسی اور ایسی کتاب نازل ہوگی جیسا کہ توریت اور انجیل میں نبی آخر الزمان کے بعثت کا ذکر ہے۔ کما قال تعالیٰ النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندہم فی التورۃ والانجیل۔ اسی طرح توریت اور انجیل میں نزول قرآن کا بھی ذکر ہے پھر قرآن کے عربی میں نازل ہونے کی وجہ بیان فرمائی پھر یہ بیان فرمایا کہ یہ قرآن وحی ربانی ہے نہ کہ القا شیطانی۔ اور اس کی دو وجہ بیان فرمائیں ہیں۔ اول یہ کہ ملا اعلیٰ تک جو احکام الٰہیہ کے نزول اور نفاذ کا محل ہے وہاں تک شیاطین پہنچنے سے محروم ہیں۔ دوم یہ کہ سنت اللہ جاری ہے کہ القا شیطانی نفوس خبیثہ پر ہوتا ہے نہ کہ نفوس قدسیہ پر کیونکہ مفید اور مستفید کے درمیان وجہ مناسبت ضروری ہے والا افادہ و استفادہ محقق نہیں ہوسکتا اور آنحضرت ﷺ کا نفس عالی نفوس قدسیہ میں سے تھا جو غایت درجہ اخلاقی اور اعمالی طہارت کے ساتھ موصوف تھا۔ نیز یہ بیان فرمایا کہ قرآن مجید از قبیل اشعار نہیں کیونکہ شعرا کا کام افراط وتفریط ہے اس لئے وہ اصلاح اخلاق و اعمال اور ہدایت خلق اللہ سے فی الجملہ بھی مناسبت نہیں رکھتے اور وحی الٰہی میں ہدایت اور اصلاح اعمال واخلاق بروجہ اتم مرکوز کی گئی ہے کمالا یخفی بعد ازاں یہ حکم دیا کہ بالخصوص اپنے خویش و اقارب کو اور قریبی قبائل کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں اور جو لوگ آپ کے متبع اور پیرو ہیں ان کے ساتھ تلطف اور مدارات کا معاملہ فرمائی اور ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں اور چونکہ سورة شعرا مکیہ ہے لہٰذا اس آیت میں مومنین سے بلحاظ نزول آیت وحی مہاجرین اولین مراد ہیں۔ وہوالمقصود۔ (ماخوذ ازازالۃ الخفاء ) تمام امت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ مابین وفتی المصحف کلام اللہ یعنی مصحف میں دو رفتوں کے درمیان اللہ کا کلام ہے اور جو شخص اس مصحف کو کلام اللہ نہ مانے وہ کافر ہے لیکن وہ اسی مصحف کے نقوش کتابیہ اور حروف مطبوعہ کو قدیم نہ مانے تو اس انکار سے وہ کافر نہ ہوگا۔ جن الفاظ قرآن کو اپنی زبانوں سے پڑھتے ہیں اور جن حروف قرآنیہ کو اپنے مصاحف میں لکھتے ہیں اگرچہ وہ حادث اور مخلوق ہیں لیکن ہمارے لئے یہ ہرگز ہرگز جائز نہیں کہ ہم مطلق قرآن کو یا کلام اللہ کو مخلوق اور حادث کہیں۔ کلام الٰہی جو ذات باری کے ساتھ قائم ہے اور اس کی صفت ہے کہ وہ بلاشبہ قدیم اور غیر مخلوق ہے لیکن ہماری قراءت اور سماعت اور کتابت یہ سب مخلوق اور حادث ہیں قرآن جس حیثیت سے بندہ سے متعلق ہے اس حیثیت سے اس کو حادث اور مخلوق کہہ سکتے ہیں تاکہ خدا کی صفت میں اور بندہ کی صفت میں فرق ہوجائے مطلقا کلام اللہ اور قرآن کو مخلوق اور حادث کہنا جائز نہیں واللہ اعلم بالصواب۔ الحمد للہ تفسیر سورة شعراء بتاریخ 9 ذی قعدۃ الحرام 1391 ھ تمام ہوئی وللہ الحمد والمنۃ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور تفسیر کے اتمام واکمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
Top