Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ : اور شاعر (جمع يَتَّبِعُهُمُ : ان کی پیروی کرتے ہیں الْغَاوٗنَ : گمراہ لوگ
اور شاعروں کی پیروی گمراہ کرتے ہیں
آیت 227-244 آنحضرت پر اشعر ہونے کے الزام کی تردید اوپر کی آیات میں آنحضرت ﷺ پر کہانت کے الزام کی تردید ہوئی۔ اب آگے کی آیات میں شعر و شاعری کے الزام کی تردید آرہی ہے۔ قریش آنحضرت ﷺ کو شاعر یا قرآن کو جو شعر کہتے تھے تو شعر یا شاعری کے معروف معنی میں نہیں کہتے تھے۔ آخر وہ ایسا کہہ بھی کیسے سکتے تھے، معروف معنی میں نہ آنحضرت ﷺ کو شاعر کہنے کی کوئی وجہ تھی اور نہ قرآن کو شعر کہنے کی۔ اصل یہ ہے کہ جب قریش نے دیکھا کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت دلوں کو مفتوح کرتی جا رہی ہے اور اس طرح اس کے خدائی کتاب ہونے کا دعویٰ روز بروز مسحتکم ہوتا جا رہا ہے تو اس کے توڑ کے لئے انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ قرآن میں جو بلاغت و جزالت ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ یہ کوئی آسمانی کلام ہے بلکہ جس طرح ہمارے بڑے شاعروں کے کلام میں بلاغت ہوتی ہے اسی طرح محمد ﷺ کے کلام میں بھی بڑی بلاغت ہے جو دلوں کو محسور کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کو اگر رکھو تو اپنے بلند رتبہ شاعروں ہی کے درجے میں رکھو، ان کو خدا کا رسول اور ان کے کلام کو وحی الٰہی کا درجہ و مرتبہ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اہل عرب یہ تصور رکھتے تھے کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اس کو شعر الہام کرتا ہے۔ یہ تصور دے کر وہ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ محمد ﷺ کا یہ دعویٰ کہ ان کے اوپر خدا کی طرف سے ایک فرشتہ یہ کلام لے کر اترتا ہے محض واہمہ ہے۔ یہ فرشتہ نہیں بلکہ اسی طرح کا کوئی جن ہے جس طرح کا جن ہر بڑے شاعر کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ الزام لگانے والوں کے اس ذہنی پس منظر کو سامنے رکھ کر اب قرآن کے جواب پر غور کیجیے۔ قرآن نے یہاں تین کسوٹیاں معترضین کے سامنے رکھ دی ہیں کہ ان پر پرکھ کر وہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ کلام شعر اور اس کا پیش کرنے والا کوئی شاعر ہے یا یہ کلام، کلام ربانی اور اس کا سنانے والا اللہ کا رسول ہے۔ فیصلہ کے لئے تین کسوٹیاں پہلی کسوٹی : درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے والشعرآء یتبعھم الغاون (224) پہلی کسوٹی یہ ہے کہ درخت اپنے پھل اور آدمی اپنے ساتھیوں سے پہچانا جاتا ہے۔ تم اپنے شاعروں کو دیکھو کہ ان کے کلام نے کس طرح کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا اور ان کو متاثر کیا ہے اور پھر پیغمبر کو دیکھو کہ ان کے کلام و پیغام نے کس طرح کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کیا ہے ؟ اگر انصاف سے دیکھو تو صاف نظر آئے گا کہ ان شعراء کے ساتھی گمراہ اوباش، عیاش اور شرپسند قسم کے لوگ بنے ہیں اور اس کے بالکل برعکس پیغمبر کے کلام نے ان لوگوں کو متاثر کیا ہے جو شریف نیک طینت، صالح فطرت اور خدا ترس ہیں۔ یہ امر یہاں محلوظ رہے کہ عرب کی سوسائٹی میں شاعری کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ عوام کی باگ بالکل انہی کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ یہ جو اگٓ بھڑکا دیتے ان کے پیرو عوام نتائج سے بےپروا ہو کر، بےخطر اس میں کود پڑتے۔ بکر و تغلب کی مشہور لڑائی، جس کے متعلق مشہور ہے کہ نصف صدی تک جاری رہی، اس کی آگ بھڑکانے میں سب سے زیادہ دخل مشہور شاعر مہلہل کے اشعار کو تھا۔ الخاقی اعتبار سے اس شاعری کا جو حال تھا اس کا اندازہ ان کے سب سے بڑے شاعر امرء القیس کے اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے بڑے شاعروں میں اس کی فحاشی کی مثالن ہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ اہل عرب بھی اس کو اپنا سب سے بڑا شاعر ماننے کے باوجود اس کو الملک الضلیل زرندہ بادشاہ کہتے تھے۔ اس کی شاعری میں اگر مکارم اخلاق کی باتیں ملتی ہیں تو وہ بطور مفاخر کے ملتی ہیں اور ان کے ساتھ بھی ایسے گھنونے مفاسد چپکے ہوئے تھے کہ ان کا ضرر ان کے نفع پر غالب ہوگیا تھا۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں جوئے اور شراب کے بحث میں ہم اس مسئلہ پر لکھ آئے ہیں۔ تفصیل کی ضرورت ہو تو اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ظاہر ہے کہ جو شاعر اس مزاج اور اس قماش کے ہوں گے وہ اسی قسم کے لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرسکیں گے جو ان کے ہم مشرب اور ہم رنگ ہوں۔ دوسری کسوٹی : شاعروں کا کوئی معین ہدف نہیں ہوتا الم ترا انھم فی کل داریھیمون (225) یہ دوسری کسوٹی ہے کہ ان شاعروں کی شاعری کا کوئی معین ہدف نہیں۔ جو واردہ دل پر گزر گیا، اگر اس کو ادا کرنے کے لئے ان کو کوئی اچھوتا اسلوب ہاتھ آگیا تو اس کو شعر کے قالب میں ڈھال دیں گے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ رحمانی ہے یا شطاتنی، روحانی ہے یا نفسانی، اس سے خیر کی تحریک ہوگی یا شر کی۔ ان کے اشعار پڑھیے تو ایک شعر سے معلوم ہوگا کہ ولی ہیں دوسرے شعر سے معلوم ہوگا کہ شیطان ہیں۔ ایک ہی سانس میں وہ نیکی اور بدی دونوں کی باتیں بےتکلف کہتے ہیں اور چونکہ اچھوتے اور مئوثر اسلوب سے کہتے ہیں اس وجہ سے پڑھنے والے دونوں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن نفس کو زیادہ مرغوب چونکہ بدی کی باتیں ہیں اس وجہ سے اس کے نقوش تو دلوں پر قائم رہ جاتے ہیں، نیکی کا اثر غائب ہوجاتا ہے اور اس طرح اگر ان کے کلام میں کچھ افادیت ہوتی بھی ہے تو وہ ان کے تضاد فکر میں غائب ہوجاتی ہے … جھاڑ جھنکاڑ کے جنگل میں اگر کچھ صالح پودے بھی لگا دیئے جائیں تو وہ ثمر نہیں ہوتے۔ اس کے بالکل برعکس قرآن کی ہم آہنگی و ہم رنگی کا حال یہ ہے کہ اس کا مخصوص و معین ہدف ہے اور شروع سے لے کر آخر تک اس کی ہر آیت اسی ہدف پر پہنچتی ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی کسی تضاد و تناقض کی نشاند ہی کرسکے اور قرآن نے اپنے اس معین ہدف کی صداقت ایسے مضبوط دلائل سے ثابت کردی ہے کہ ایک ہٹ دھرم کے سوا کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے کلام کو شعر اور اس کے پیش کرنے والوں کو شاعر کہعنے کا کیا تک ہے ! تیسری کسوٹی : شاعر صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں۔ وانھم یقولون مالا یفعلون (220) یہ تیسری کسوٹی ہے کہ شاعر گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے غازی نہیں ہوتے۔ وہ اپنے شعروں میں تو اپنے آپ کو رزم کے رستم و اسفند یار اور کوچہ عشق کے مجنوں و فرہاد کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں لیکن یہ محض لاف زنی ہوتی ہے، عملی اعتبار سے وہ بالکل صفر ہوتے ہیں۔ وہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور ان کی ساری رزم و بزم بالکل خیالی ہوتی ہے۔ جن مکارم اخلاق کی تعریف میں وہ آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ اسی طرح اپنی جس رندی کا وہ اپنے شعروں میں اشہتار دیتے ہیں وہ بھی درحقیقت اپنی ہوس کا اشتہار دیتے ہیں۔ عملی اعتبار سے وہ اس میں بھی بزدل ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پیغمبر کو دیکھو کہ وہ جو کلام پیش کر رہے ہیں اس کا سب سے بڑا عملی نمونہ وہ خود ہیں۔ جس خدا ترسی، جس بندگی، جس ایثار اور جس قربانی کی دعوت وہ خلق کو دیتے ہیں اس پر سب سے آگے بڑھ کر اور سب سے زیادہ عمل وہ خود کرتے ہیں اور ان کا کٹر سے کٹر دشمن بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ان کا کوئی قول و فعل سرمو اس کتاب سے منحرف ہے جو وہ لوگوں کو خدا کی کتاب کی حیثیت سے سنا رہے ہیں تو ایک ایسی قدسی صفات شخص کو ان شاعروں کی صف میں کھڑے کرنے کے کیا معنی جن کے اقوال و اعمال میں ادنیٰ مطابقت بھی نہیں ہے ! آیت 227 دربار رسالت کے شعراء کا استثناء یہ اس عام کلیہ سے جو شعراء سے متعلق مذکور ہوا، استثناء ہے اور یہ اشارہ ہے دربار رسالت کے شاعروں کی طرف فرمایا کہ یہ لوگ بیشک ایمان کی دولت سے بہرہ مند ہیں۔ ایمان نے ان کی شاعری کا ایک ہدف معین کردیا ہے اس وجہ سے یہ چوبائی تیر نہیں پھینکتے بلکہ ان کا ہر شعر کلمہ حق کی حمایت میں اور رفع ذکر الٰہی کے لئے ہوتا ہے اور یہ صرف گفتار کے غازی نہیں ہیں بلکہ تقویٰ اور عمل صالح کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔ وذکر وا للہ کثیرا یعنی ان کے کلام میں عشق و ہوس اور مفاخر و مطاعن کے بجائے زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر اور اعلائے کلمتہ اللہ ہوتا ہے۔ وانتصروا من بعد ماظلموا یعنی اگر انہوں نے اپنے شعروں میں دوسروں سے متعلق کچھ کہا ہے تو وہ ہجو نہیں ہے بلکہ اپنے حق کی حمایت و مدافعت میں کہا ہے جب کہ ان پر زیادتی کی گئی ہے۔ ہر مظلوم کو اپنی اور دوسرے مظلوموں کی مدافعت کا حق حاصل ہے۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون جب ان لوگوں کی مظلومی کا ذکر آگیا تو ساتھ ہی ان ظالموں کے انجام کی طرف بھی اشارہ فرما دیا جو اس ظلم کے مرتکب ہوئے۔ فرمایا کہ ابھی تو ان کے ظلم کی مدافعت زبان سے ہو رہی ہے لیکن عنقریب وہ وقت بھی آنے والا ہے جب یہ کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ یہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں ! ہمارے شعراء اور ان کی شاعری شعراء اور ان کی شاعری پر قرآن نے یہ تنقدی جو کی ہے اگرچہ اصلاً اس کا تعلق جاہلیت کے شعراء اور ان کی شاعری سے ہے لیکن انصاف سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ تنقید ٹھیک ٹھیک ہمارے شعراء اور ان کی شاعری پر بھی منطبق ہو رہی ہے۔ اور یہ بات میں ان عام شاعروں کو سامنے رکھ کر نہیں عرض کر رہا ہوں جو صرف تک بندی کرتے ہیں۔ ایسے شاعروں کی خرافات پڑھنے کا اتفاق مجھے کبھی مشکل ہی سے پیش آیا ہے۔ میں یہ بات ان بلند رتبہ شاعروں کو پیش نظر رکھ کر عرض کر رہا ہوں جن کے شاعر ہونے میں کلام نہیں کیا جاسکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر قرآن کی اس کسوٹی پر ان کے کلام کو جانچیے تو مشکل سے گنتی کے چند شاعر ایسے نکلیں گے جو اس کسوٹی پر پورے اتریں گے۔ باقی سب فی کلو وادیھیمون اور یقولون مالا یفعلون کے مصداق اور ان کے مداح اور پیرو بھی انہی کی طرح غاوت میں داخل ہیں۔ ان سطروں پر اس سورة کی تفسیر تمام ہوئی۔ جو باتیں قلم سے صحیح نکلی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے صحیح نکلی ہیں اور اگر کوئی بات غلط نکلی ہے تو وہ میرے علم کی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ضرر سے مجھ کو بھی محفوظ رکھے اور اس کتاب کے قارئین کو بھی واخردعوانا ان الحمد اللہ رب العلمین
Top