Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 57
وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا١ؕ اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ نَّتَّبِعِ : اگر ہم پیروی کریں الْهُدٰى : ہدایت مَعَكَ : تمہارے ساتھ نُتَخَطَّفْ : ہم اچک لیے جائیں گے مِنْ اَرْضِنَا : اپنی سرزمین سے اَوَ : کیا لَمْ نُمَكِّنْ : نہیں دیا ٹھکانہ ہم نے لَّهُمْ : انہیں حَرَمًا اٰمِنًا : حرمت والا مقام امن يُّجْبٰٓى : کھنچے چلے آتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف ثَمَرٰتُ : پھل كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے (قسم) رِّزْقًا : بطور رزق مِّنْ لَّدُنَّا : ہماری طرف سے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے ؟ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے
اتمام حجت وقطع معذرت یعنی قبول ہدایت کے بارے میں کافروں کے ایک حیلہ اور بہانہ کا ذکر اور اس کا جواب قال اللہ تعالیٰ وقالوا ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا۔۔۔ الی۔۔۔ افلا تعقلون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں یہ بتلایا کہ آنحضرت ﷺ من جانب اللہ ہادی برحق ہے۔ حق کا راستہ بتلانے والے ہیں مگر کسی کے دل میں حق کا اتار دینا یہ اللہ ہی کا کام ہے نبی کا کام ہدایت اور رہنمائی اور حق کی دعوت ہے اور بندوں کا کام اللہ کی راہ پر چلنا اور اس کی ہدایت اور دعوت کو قبول کرنا ہے اب آئندہ آیات میں کافروں کے ایک حیلہ اور بہانہ کا ذکر کر کے اس کا جواب دیتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں اور یہ جاہل ہدایت کے نہ قبول کرنے کے عذر میں یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کی پیروی کریں اور قبائل عرب کی مخالفت کریں تو ہم کو اندیشہ ہے کہ ہم اپنی زمین سے اچک لئے جائیں اور اپنے گھروں سے نکال دئیے جائیں۔ حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ﷺ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے اور وہ دنیاوی زندگی میں ہماری دولت کا سبب ہے اور مرنے کے بعد ہماری سعادت کا ذریعہ ہے مگر ہم کو ڈر یہ ہے کہ آپ کی متابعت سے تمام قبائل عرب ہمارے دشمن ہوجائیں گے اور ہم کو ہمارے گھروں سے نکال دیں گے اور ہم میں ان کے مقابلہ کی قوت نہیں۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں ان کے اس شبہ کے تین جواب دئیے گئے۔ جواب اول اولم نمکن لہم حرما امنا یجبی الیہ ثمرات کل شیء رزقا من لدنا ولکن اکثرہم لا یعلمون۔ کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہم نے ان کو حرم میں آباد کیا ہے جو امن وامان کی جگہ ہے جہاں کوئی لڑائی کا نام بھی نہیں لیتا اور ان کو ایسی جگہ بسایا ہے جہاں ہر قسم کے پھل اور سامان رزق ہماری طرف سے کھچا چلا آتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے تو جس خدا نے تم کو اپنے حرم میں بسایا ہے جہاں کے رہنے والوں کو کوئی نہیں چھیڑتا اور باوجودیکہ یہ حرم میں امن سے بیٹھے ہو تو کیا خدا پرستی اور حق اور ہدایت کے اتباع سے اس نعمت و کرامت سے محروم ہوجاؤ گے حاصل جواب یہ ہے کہ جب ہم نے ان کو کفر اور شرک کی حالت میں اپنے حرم محترم میں پناہ دی اور امن وامان دیا اور رزق دیا اور مقام محفوظ میں ان کو بسایا تو اگر اسلام لے آئیں۔ اور خدا پرست بن جائیں تو خدا کی رحمت سے پہلے سے زیادہ مامون اور محفوظ ہوں گے اور پہلے سے زیادہ رزق پاویں گے۔ دوسرا جواب وکم اھلکنا من قریۃ بطرت معیشتھا۔۔۔ الی۔۔۔ الا واھلھا ظالمون۔ اور یہ نادان جو دنیاوی فوائد اور منافع کے خیال سے ہدایت کے اتباع سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ ہم نے ہدایت کا اتباع نہ کرنے کے جرم میں کتنی ہی بستیاں ہلاک کر ڈالیں جو اپنے سامان عیش و عشرت پر اتراتی تھیں اور دن رات عیش و عشرت میں غرق تھیں مگر ایمان نہ لانے اور ہدایت کے قبول نہ کرنے کی وجہ سے ان کی تمام نعمتوں پر پانی پھر گیا جس کی علت ان کا کفر تھا۔ معلوم ہوا کہ ایمان اور قبول ہدایت زوال نعمت کا سبب نہیں بلکہ کفر اور ضلالت پر جمود اور اصرار زوال نعمت کا سبب ہے۔ دیکھو تفسیر کبیر ص 487 ج 6۔ وہمی اور خیال اور احتمالی مصیبتوں اور آفتوں سے تو ڈرتے ہیں اور کفر کی ان دنیوی مصیبتوں سے نہیں ڈرتے کہ جو پیش آچکی ہیں اور ان کا انکار ممکن نہیں۔ پس یہ ان باغیوں اور طاغیوں کے مکانات ہیں جو تمہاری نظروں کے سامنے ہیں اور ان کے یہ مسکن خالی اور خراب پڑے ہیں جو ان کے ہلاک ہونے کے بعد آباد نہیں ہوئے مگر بہت تھوڑے کہ کوئی مسافر چلتا رہ وہاں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے اور دنیا کی عیش و عشرت پر نازل کرنے والے اور اترانے والے چل بسے اور ان کی بستیاں تباہ اور برباد ہوگئیں اور آخر میں ہم ہی ان کے وارث ہوئے یعنی وہ بستیاں ایسی اجڑیں کہ کوئی ان کا نام لینے والا نہیں رہا معلوم ہوا کہ دولت و ثروت میں اترا کر اتباع ہدایت اور قبول حق سے گریز کا انجام تباہی اور بربادی ہے پس تم بزعم خود کفر وضلالت پر اصرار اور ایمان واسلام سے انکار کر کے اپنے ذرائع معاش اور وسائل دولت و ثروت کی حفاظت کر رہے ہو۔ لیکن در حقیقت یہی باتیں تمہاری ہلاکت کا موجب ہیں۔ چشم عبرت سے کام لو اور دیکھو کہ ہم نے کتنی آبادیاں جو مال و دولت کے نشہ میں طغیان اور سرکشی کرنے لگی تھیں کس طرح ان کو تباہ اور برباد کردیا کہ آج ان کا نام ونشان بھی نہیں رہا اور اے نبی تیرا پروردگار بستیوں اور آبادیوں کو تباہ کرنے والا نہیں یہاں تک کہ ان کے کسی بڑے شہر میں رسول بھیجے جو ان کو ہماری باتیں سنائے اور بتائے اور وہ ہمارے احکام کی پروانہ کریں تو ان پر ہمارا قہر نازل ہوتا ہے اور پھر ہم پیغمبر بھیجنے کے بعد بھی فورا ان بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے مگر اسی حالت کہ جب وہاں کے باشندے کھلم کھلا ظالم اور ستمگار ہوجائیں اعلانیہ طور پر حق سے انکار کرنے لگیں۔ اور ظلم وستم پر اتر آئیں اور حق کی دشمنی پر اور ظلم پر کمر ہی باندھ لیں اور یہی ٹھان لیں کہ اب حق کو نہیں مانیں گے تب اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے۔ تیسرا جواب وما اوتیتم من شیء فمتاع الحیوۃ الدنیا۔۔۔ الی۔۔۔ افلا تعقلون۔ اور اے بدنصیبو خوب سمجھ لو جو کچھ تم دئیے گئے ہو سو اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ چند روزہ دنیاوی زندگی کی بہرہ مندی ہے اور اس کی زینت اور آرائش ہے یعنی جس مال ومتاع کی خاطر تم دین اسلام قبول نہیں کرتے وہ فقط چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور فنا ہونے والا ہے اور ایمان لانے والوں اور ہدایت قبول کرنے والوں کے لئے جو خدا کے نزدیک مہیا کیا گیا ہے وہ اس دنیا کی زینت سے کہیں بہتر ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ باقی رہنے والا ہے۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے پس اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر ہم ایمان لائے تو ہمارا مال ومتاع ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا پس اگر تمہارے اس خیال کو صحیح مان لیا جائے تو یہ سوچو کہ دنیا کا تمام مال ومتاع فانی ہے اور چند روزہ ہے لہٰذا اگر یہ چند روزہ اور کھوٹی پونجی دے کر آخرت کی دائمی نعمت اور لازوال اور بےمثال دولت حاصل کرلو تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ دنیا کی کوئی نعمت مضرت اور کدورت سے خالی نہیں اور ایک محدود اور معین وقت کے لئے ہے دائمی نہیں اور محدود اور متناہی ہے اور آخرت کی نعمتیں مضرت اور کدورت سے بالکلیہ خالی ہیں اور باقی اور لازوال اور بےمثال ہیں اور غیر محدود اور غیر متناہی ہیں۔ پس ذرا خیال تو کرو اور اپنے دل میں انصاف کرو کہ فانی پر اکڑ رہے ہو اور باقی کو چھوڑ رہے ہو کیا فانی اور باقی برابر ہوسکتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دنیا کی حقارت اور ذلت کو بتلایا کہ دنیا کی حقیقت صرف ایک چند روزہ ظاہری زینت سے زیادہ نہیں۔ قابل رغبت دار آخرت ہے جس میں ایمان لانے والوں کو بےمثال اور لازوال نعمتیں ملیں گی لہٰذا فکر کرو۔ ما عندکم ینفد وما عند اللہ باق اور وما الحیاۃ الدنیا فی الاخرۃ الا متاع بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا والاخرۃ خیر وابقی۔
Top