Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 14
قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ
قَاتِلُوْهُمْ : تم ان سے لڑو يُعَذِّبْهُمُ : انہیں عذاب دے اللّٰهُ : اللہ بِاَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھوں سے وَيُخْزِهِمْ : اور انہیں رسوا کرے وَيَنْصُرْكُمْ : اور تمہیں غالب کرے عَلَيْهِمْ : ان پر وَيَشْفِ : اور شفا بخشے (ٹھنڈے کرے) صُدُوْرَ : سینے (دل) قَوْمٍ : لوگ مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
ان سے خوب لڑو۔ خدا انکو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔
مشرکین عرب کے فخر اور ناز کا جواب اور اعمال فاضلہ کا بیان قال اللہ تعالیٰ ۔ ماکان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ عندہ اجر عظیم۔ (ربط): سورت کا آغاز مشرکین کی براءت اور بیزاری سے فرمایا بعد ازاں ان کے قبائح اور فضائح کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ اسی قابل ہیں کہ ان سے براءت اور بیزار اختیار کی جائے ان لوگوں کا خدا تعالیٰ کے یہاں کوئی مرتبہ نہیں۔ چونکہ یہ اعلان براءت ان کی اہانت اور تحقیر پر مبنی تھا اس لیے مشرکین مکہ نے اپنی فضیلت ثابت کرنے کے لیے بڑے فخر اور ناز سے یہ کہا کہ ہم بہت سی خاص حمیدہ اور افعال پسندیدہ کے حامل ہیں ہم سے براءت اور بیزاری کی کوئی وجہ نہیں ہم حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں اور انہیں پانی پلاتے اور مسجد حرام کی مرمت اور خدمت کرتے ہیں قریش اس قسم کے محاسن ذکر کرتے اور ان پر فخر کرتے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں جس میں ان کے اس فخر اور ناز کا جواب دیا گیا اور بتلادیا گیا کہ تمہارے یہ تمام اعمال سب بےجان اور بےروح ہیں سب سے افضل عمل ایمان باللہ اور ہجرت فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے ایمان باللہ سے حق تعالیٰ کے ساتھ صحیح تعلق قائم ہوتا ہے اور خدا کے لیے وطن اور خویش و اقارب سے ہجرت یہ خدا تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے اور جہاد فی سبیل اللہ سے اس کی وفا داری اور جانثاری کا تمغہ ملتا ہے۔ سقایتہ الحاج اور عمارۃ المسجد الحرام کا عمل اگرچہ اعمال صالحہ میں سے ہے مگر اس کی مقبولیت کی شرط خدا اور اس کے رسول پر اور قیامت کے دن پر ایمان لانا اور نماز پڑھنا اور زکوٰۃ دینا اور دل میں خوف خدا کو جگہ دینا ہے چونکہ قریش میں یہ صفات نہیں اس لیے ان کے عیہ اعمال حبط اور کالعدم قرار دئیے گئے اور اگر بالفرض ان کے اعمال حبط اور کالعدم بھی نہ ہوں تو بھی وہ ایمان اور نماز اور زکوٰۃ اور ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہوسکتے عمارۃ المسجد الحرام اور سقایۃ الحاج۔ ایمان اور ہجرت اور جہاد جیسے عمل کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور مساجد الٰہی کی تعمیر ان لوگوں کا کام نہیں کہ جو کفر اور شرک کی نجاستوں میں ملوث ہوں۔ کفر اور شرک سے تو اچھے اعمال بھی حبط ہوجتا ہے لہذا کفر اور شرک کے ہوتے ہوئے تعمیر مسجد حرام اور مہمان نوازی وغیرہ وغیرہ کا ذکر سب بیکار ہے تمہارے یہ اعمال کفریہ وفخریہ ایمان اللہ اور ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ لایستو ون عندا للہ۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ مشرکین کے لیے لائق اور درست نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں حالانکہ وہ خود اپنی ذاتوں پر کفر اور شرک کے گواہ ہیں کفر اور شرک غیر خدا کی پرستش کے لیے ہے ایسے لوگوں نے اگر کفر اور شرک کرنے سے پہلے نیک عمل بھی کیے تھے تو خفر اور شرک سے ان کے تمام نیک اعمال اکارت گئے اور سب کے سب باطل اور ناپید ہوگئے یعنی ان کا مہمانوں کی ضیافت کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجدوں کو آباد کرنا اور قیدیوں کو چھڑانا اس قسم کے سب اعمال جن پر یہ فخر کرتے ہیں کفر اور شرک کی وجہ سے سب اکارت گئے اور اسی کفر اور شرک کی وجہ سے یہ لوگ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔ جز ایں نیست کہ مساجد الٰہی کو اپنی عبادت اور طاعت سے وہی شخص آباد کرتا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور سوائے خدا تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرا سو امید ہے کہ ایسے لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ کلمہ عسی ولعل اظہار تعوقع کے لیے لایا جاتا ہے۔ اس جہ کلمۂ " عسی " مشرکین کی طمع قطع کرنے کے لیے لایا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کمالات علمیہ اور کمالات عملیہ کے جامع ہیں ان کی ہدایت بھی لعل اور عسی کے درمیان دائر ہے یعنی ان کی ہدایت اور راہ یابی بھی متوقع ہے قطعی اور یقینی نہیں تو جو لوگ کفر اور شرک کی نجاستوں میں ملوث ہیں ان کا تو حال بد مآال کا کیا ذکر، نیز اشارہ اس طرف ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اعمال پر مغرور نہ ہونا چاہئے جو شخص اپنے عمل پر مغرور ہے وہ فیض ربانی سے دور ہے مباش غرہ بعلم وعمل کہ شد ابلیس بدیں سبب زد رِ بارگاہ عزت دور کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کی عمارت کی خدمت بجا لانے والے کو اس شخص کے برابر کردیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لا یا جو تمام عبادتوں کی جڑ ہے اور جس نے خدا کی راہ پر جہاد کی اور اللہ کے کلمہ کو بلند کیا یہ دونوں فریق اللہ کے یہاں برابر نہیں اور اللہ منزل مقصود کی راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور کفر اور شرک کرکے خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر اور حاجیوں کے پانی پلانے کو ایمان اور جہاد کے برابر سمجھ لیا یہ غلط ہے ہرگز برابر نہیں۔ خوب سمجھ لہ کہ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور پھد خدا کے لیے اپنے گھر بار اور خویش و اقارب سب کو چھوڑا اور پھر خدا کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہاد کی اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اپنے خویش و اقارب سے جنگ کی ایسے لوگ اللہ کے نزدیک بڑے درجہ والے ہیں اور ایسے ہی لوگ دونوں جہان میں کامیاب ہیں خوشخبری دیتا ہے ان کو ان کا پروردگار اپنی خاص رحمت کی اور رضا مندی کی اور ایسے باغوں کی جن میں ان کے لیے دائمی نعمت ہوگی جو کب بھی منقطع نہ ہوگی وہ ہمیشہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بڑا اجر ہے جس کے سامنے تمام دنیا ہیچ ہے اور خدا تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی جنت سے بھی بڑھ کر ہے ان آیات سے مہاجرین ومجاہدین کی فضیلت واضح لائحہ ہے کاش حضرات شیعہ بھی ان آیات کو پڑھیں اور اپنے دلوں کو صحابہ کرام ؓ کی کدورت سے پاک کریں۔
Top