Tafseer-e-Madani - Ibrahim : 12
وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَا١ؕ وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا لَنَآ : ہمارے لیے اَلَّا نَتَوَكَّلَ : کہ ہم نہ بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور قَدْ هَدٰىنَا : اس نے ہمیں دکھا دیں سُبُلَنَا : ہماری راہیں وَلَنَصْبِرَنَّ : اور ہم ضرور صبر کرینگے عَلٰي : پر مَآ : جو اٰذَيْتُمُوْنَا : تم ہمیں ایذا دیتے ہو وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : پس بھروسہ کرنا چاہیے الْمُتَوَكِّلُوْنَ : بھروسہ کرنے والے
اور ہم کیوں اللہ پر بھروسہ نہ کریں جب کہ اسی نے ہمیں (دارین کی سعادتوں کی) راہیں سمجھا دیں، اور ہم ضرور صبر (و برداشت) ہی سے کام لیتے رہیں گے ان ایذاؤں پر جو تم لوگ ہمیں پہنچا رہے ہو، اور اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے (ہر حال میں) ، بھروسہ کرنے والوں کو،
26۔ حضرات انبیائے کرام کی طرف سے صبروبرداشت کا اعلان : سومنکرین و مکذبین کے جواب میں حضرات انبیائے کرام نے کہا کہ ہم صبروبرداشت ہی سے کام لیتے رہیں گے تمہاری ایذاء رسانیوں پر۔ پس نہ ہم تمہاری ان بےہودگیوں اور ایذاء رسانیوں کا کوئی جواب دیں گے اور نہ ہی جادہ حق واستقامت کو ترک کریں گے۔ سو یہ حضرات انبیائے کرام۔ علیہم الصلوۃ والسلام۔ کے صدق و اخلاص اور ان کے استقلال واستقامت اور للہیت کے اعلی مدارج و درجات کا ایک واضح نمونہ ہے کہ معاندین و منکرین کی طرف سے ایسے معاندانہ اور اذیت رساں سلوک کے جواب میں بھی نہ کسی انتقام کا کوئی ذکر اور نہ کسی اشتعال اور جذباتیت کا کوئی پہلو ہے۔ بلکہ صبر و برداشت ہی کا اعلان وارشاد ہے۔ سو یہ انہی قدسی صفت حضرات کی شان ہوسکتی ہے جو سراپا صدق و اخلاص ہوتے ہیں۔ اور ان میں کسی ذاتی غرض یا مفاد کا کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا۔ سو ان حضرات نے منکرین و مکذبین کی جواب میں ارشاد فرمایا کہ ہمارا عزم و ارادہ یہی ہے کہ ہم راہ حق و ہدایت پر ثابت قدم رہیں اور اس راہ میں تمہاری طرف سے جو بھی ابتلائیں پہنچیں گی ان پر ہم صبر و برداشت ہی سے کام لیں گے۔ اور اس سب میں ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کر رکھا ہے کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے۔ اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی وحدہ لاشریک پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
Top