Mutaliya-e-Quran - Ibrahim : 12
وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَا١ؕ وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا لَنَآ : ہمارے لیے اَلَّا نَتَوَكَّلَ : کہ ہم نہ بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور قَدْ هَدٰىنَا : اس نے ہمیں دکھا دیں سُبُلَنَا : ہماری راہیں وَلَنَصْبِرَنَّ : اور ہم ضرور صبر کرینگے عَلٰي : پر مَآ : جو اٰذَيْتُمُوْنَا : تم ہمیں ایذا دیتے ہو وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : پس بھروسہ کرنا چاہیے الْمُتَوَكِّلُوْنَ : بھروسہ کرنے والے
اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو اُن پر ہم صبر کریں گے اور بھروسا کرنے والوں کا بھروسا اللہ ہی پر ہونا چاہیے"
[وَمَا لَنَآ : اور ہمیں کیا ہے ] [ اَلَّا نَتَوَكَّلَ : کہ ہم بھروسہ نہ کریں ] [عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر ] [وَ : اس حال میں کہ ] [ قَدْ هَدٰىنَا : اس نے ہدایت دی ہے ہم کو ] [ سُبُلَنَا : ہماری راہوں کی ] [وَلَنَصْبِرَنَّ : اور ہم لازماً ثابت قدم رہیں گے ] [ عَلٰي مَآ : اس پر جو ] [ اٰذَيْتموْنَا : تم لوگ اذیت دیتے ہو ہم کو ] [ وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر ہی ] [ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے کہ بھروسہ کریں ] [الْمُتَوَكِّلُوْنَ : بھروسہ کرنے والے ] نوٹ۔ 1: مذکورہ آیات میں رسولوں اور ان کی قوموں کے لئے جمع کے صیغے آئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ سب قومیں اور ان کے رسول ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ موجود تھے جب یہ مکالمہ ہوا تھا۔ بلکہ ہر قوم کے مقام پر اور اس کے وقت پر اس کے پاس ان کا رسول آیا تھا۔ ان قوموں کے مابین زمان و مکان کا بہت فاصلہ ہے اس کے باوجودہر زمانے میں اللہ کے رسولوں کا پیغام ایک ہی رہا ہے اور ان کو جواب بھی ایک ہی ملا ہے۔ اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ مکالمہ جمع کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نبوت و رسالت کا انکار کرنے والوں کی ایک دلیل ہمیشہ مشترک رہی ہے اور وہ یہ کہ کوئی بشر نبی نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ نبوت و رسالت کے مدعی بشر ہوتے تھے اس لئے ان کی قومیں ان کا انکار کرتی تھیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر زمانے میں ہر نبی اور رسول نے اس دلیل کے جواب میں ہمیشہ اپنی بشریت کا اعتراف اور اقرار کیا۔ کسی ایک بھی نبی یا رسول نے کبھی مافوق البشر ہونے کا دعوٰی نہیں کیا۔ اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں ہی سے کسی کو اس منصب پر فائز کرتا ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب کے کیسٹ سے ماخوذ) ۔
Top