Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 12
وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَا١ؕ وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا لَنَآ : ہمارے لیے اَلَّا نَتَوَكَّلَ : کہ ہم نہ بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور قَدْ هَدٰىنَا : اس نے ہمیں دکھا دیں سُبُلَنَا : ہماری راہیں وَلَنَصْبِرَنَّ : اور ہم ضرور صبر کرینگے عَلٰي : پر مَآ : جو اٰذَيْتُمُوْنَا : تم ہمیں ایذا دیتے ہو وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : پس بھروسہ کرنا چاہیے الْمُتَوَكِّلُوْنَ : بھروسہ کرنے والے
اور ہم اللہ پر بھروسہ کیسے نہ رکھیں درآنحالیکہ اس نے ہمیں ہمارے راستے دکھادئیے،23۔ اور تم نے جو ہمیں ایذا پہنچائی اس پر ہم صبر ہی کریں گے، اور بھروسہ رکھنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے،24۔
23۔ (تو ایسے شفیق محسن پر تو کامل بھروسہ کرنا اور ضروری ہوگیا) (آیت) ” سبلنا “۔ یعنی ہمارے نفع دارین کے راستے۔ 24۔ (نہ کہ کسی اور پر، یہ اپنی تدبیروں پر) توکل شریعت اسلامی میں ہرگز ترک تدبیر کے مرادف نہیں، حضرات انبیاء اور ان کے اصحاب ورفقاء تدبیر امور سے کبھی بھی غافل نہ ہوئے، بلکہ اس بات میں نہایت مستعد رہے، البتہ مؤثر ان تدبیروں ہی کو کبھی نہ سمجھے، بلکہ انجام وتاثیر میں ہمیشہ اللہ ہی کے فضل وکرم کے امیدوار رہے، (آیت) ” ولنصبرن “۔ یہ صبر بھی ایک فرد اسی توکل علی اللہ کی ہے۔ (آیت) ” علی مآاذیتمونا “۔ اس ایذاء کے تحت میں دماغی، جسمانی ہر قسم اور ہر درجہ کی اذیتیں آگئیں جو مخالفین معاندین کے ہاتھوں حضرات انبیاء کرام کو برابر پہنچتی رہیں :۔
Top