Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 9
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن يَهْدِيْ : رہنمائی کرتا ہے لِلَّتِيْ : اس کے لیے جو ھِيَ : وہ اَقْوَمُ : سب سے سیدھی وَيُبَشِّرُ : اور بشارت دیتا ہے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ : کہ لَهُمْ : ان کے لیے اَجْرًا كَبِيْرًا : بڑا اجر
بیشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اس راستے کی جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور یہ خوشخبری سناتا ہے ان ایمانداروں کو جو نیک کام کرتے ہیں، کہ ان کے لئے ایک بڑا ہی عظیم الشان اجر (وثواب) ہے،
19۔ قرآن کی راہنمائی سب سے زیادہ سیدھے راستے کی طرف :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک یہ قرآن اس راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا اور ہر لحاظ سے درست راستہ ہے۔ جس میں نہ کوئی کجی ہے نہ غموض۔ اور جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور دارین کی سعادت و سرخروئی اور فوز و فلاح کا کفیل وضامن ہے۔ اور جو عبارت ہے اس دین قیم اور ملت حنیفیہ سے۔ اور جو مقتضی ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا اور جو مفاد ہے قرآن وسنت کی تعلیمات مقدسہ کا۔ اور جس کا حاصل ونچوڑ اور خلاصہ ہے انابت ورجوع الی اللہ۔ اور یہ اعتقاد کہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت اسی کا حق ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو ” اقوم “ کے معنی ہیں سیدھا اور مستقیم۔ یعنی وہ راستہ جو ٹھیک فطرت مستقیم اور عقل سلیم کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ اور جو سیدھا خدا تک پہنچنے اور پہنچانے والا ہے۔ اس کے سوا باقی سب راستے ٹیڑھے۔ والعیاذ باللہ :۔ 20۔ قرآن حکیم سے حقیقی استفادہ و فیضیابی کیلئے اولین شرط ایمان صادق :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور یہ خوشخبری سناتا ہے ان ایمانداروں کو جو نیک عمل کرتے ہیں “ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات مقدسہ اور ارشادات عالیہ کے مطابق۔ سو معلوم ہوا کہ قرآن پاک سے مستفید ہونے کی پہلی اور بنیادی شرط اس پر سچا پکا ایمان رکھنا ہے۔ اور دوسری شرط اس کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا۔ جتنی ان دونوں باتوں میں پختگی ہوگی اتنا ہی یہ نوازے گا اور نوازتاچلا جائے گا۔ اللہم ارزقنا التوفیق وکماتحب وترضی۔ پس انسان کی اصل قدروقیمت اور اس کا شرف و مرتبہ اس کے ایمان و یقین اور عمل و کردار سے ہے اور بس۔ نہ کہ رنگ ونسل اور حسب ونسب وغیرہ جیسے دوسرے کسی عامل پر۔ سو اس ارشاد ربانی میں ایک طرف اہل کفر و باطل کو دعوت ایمان ہے کہ اگر تم لوگ راہ حق پر چلنا اور اپنے رب سے ملنا اور اس تک پہنچنا چاہتے ہو تو صدق دل سے اس کتاب حکیم پر ایمان لے آؤ۔ ورنہ تمہارے لیے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ وضلال، سوء وانحراف۔ 21۔ اہل ایمان کیلئے اجر کبیر کا مژدہ جانفزا :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” ان کیلئے ایک بڑا ہی عظیم الشان اجر وثواب ہے “ اتنا بڑا اور اس قدر عظیم الشان کہ اس کی عظمت وسعت دارین کو محیط ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں حیات طیبہ ” پاکیزہ زندگی “ اور سچی ناموری کی دولت سے بہرہ ور ہوں گے۔ اور آخرت میں جنت کی نعیم مقیم سے سرفراز۔ اللہم اجعلنا منہم بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین۔ اور وہاں ان کیلئے وہ کچھ ہوگا جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ ہی کسی دل پر اس کا گزر ہی ہوگا۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ سو جو لوگ اس اجر کبیر اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و فیضاب ہونا چاہتے ہوں وہ صدق دل سے قرآن حکیم پر ایمان لاکر اس کی دروس وتعلیمات کو اپنائیں۔ کہ یہی راستہ ہے صحت و سلامتی کا۔ وباللہ التوفیق۔
Top