Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 9
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن يَهْدِيْ : رہنمائی کرتا ہے لِلَّتِيْ : اس کے لیے جو ھِيَ : وہ اَقْوَمُ : سب سے سیدھی وَيُبَشِّرُ : اور بشارت دیتا ہے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ : کہ لَهُمْ : ان کے لیے اَجْرًا كَبِيْرًا : بڑا اجر
یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
باعث ہدایت کتاب اور انسانی فطرت تشریح : اللہ تعالیٰ فصاحت و بلاغت بھرے انداز میں فرما رہے ہیں کہ قرآن رحمت ہے، برکت ہے، کیونکہ اس میں بہترین زندگی گزارنے کے وہ تمام اصول بتا دیے گئے ہیں جو انسان کو اجر عظیم کا حق دار بنائیں گے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ جو ایمان نہیں لاتے وہ بچ نہ سکیں گے ان کو درد ناک عذاب ضرور دیا جائے گا۔ پھر انسانی فطرت کا ذکر اس طرح کیا کہ انسان بڑا جلد باز ہے، جیسے بھلائیوں کے لیے دعائیں کرتا ہے اسی طرح تکلیف پہنچنے پر بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے بددعا کرنے لگتا ہے یہ تو اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ انسان کی اس حماقت کو سمجھتے ہوئے اس کی بددعا قبول نہیں کرتا۔ اس موضوع پر سورة یونس آیت 11 میں بڑی اچھی وضاحت ہوچکی ہے۔ پھر آخر میں اللہ رحمن و رحیم اپنی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری نشانیوں میں سے ایک دونشانیاں دن و رات کا مسلسل آنا ہے اور ان کا ردوبدل بڑے اندازے اور حکمت کی نشانی ہے اور پھر ان کے آنے جانے میں انسان کے لیے فائدے ہی فائدے ہیں۔ روشن دن کام کے لیے اور اندھیری رات آرام کے لیے اور پھر دن مہینے اور سال کا اندازہ بھی تو انہی کے آنے جانے سے لگایا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں بڑی وضاحت سے بیان کردی گئی ہیں۔ ایک مفکر اور مدبر اس تحقیق میں کہ آخر اس میں سائنس کا کون سا نکتہ پوشیدہ ہے اس کی جستجو میں کئی اور بیشمار نکات ڈھونڈ لیتا ہے۔ مسلمان ماہر فلکیات نے اس علم کو بہت ترقی دی اور انہوں نے قرآنی آیات کی روشنی میں ستاروں اور سیاروں کی حرکات و مقامات کے حسابات بڑے ٹھیک ٹھیک کیے اور کئی مشہور سائنسدان مثلاً بطلیموس کے کئی مشاہدات کو غلط ثابت کیا اسی طرح بہت سے سائنسدان اپنے تحقیقی مشاہدات کو بدلتے رہتے ہیں جبکہ قرآن پاک کے اشارات بڑے سچے اور پکے ہیں، مثلاً سورج کے بارے میں گردش کرنے کا مسئلہ قرآن پاک میں بتا دیا گیا کہ ” وہ اپنے مستقر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ “ جبکہ سائنس دان اس کو ٹھہرا ہوا ثابت کرتے رہے اور ماضی قریب میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ سورج بھی گردش میں ہے، ٹھہرا ہوا نہیں۔ موجودہ دور خلائی دور کہلاتا ہے۔ بیشمار دوربینیں، رصد گا ہیں خلا میں بھیجی چا چکی ہیں جو زمین کے گرد گھوم رہی ہیں 20 جولائی 1969 ء میں انسان چاند پر قدم رکھ چکا تھا اور اس طرح انسان نے چاند سے اپنی زمین کا مشاہدہ کرلیا۔ اب تو یہ پرانی بات ہوچکی ہے۔ معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا سورج اوسط درجے کا ستارہ ہے اس کا قطر تقریباً 1.4 ملین (14 لاکھ) کلو میٹر ہے۔ سورج زمین کی سطح کے نصف کو جو اس کے سامنے ہوتا ہے روشن کردیتا ہے اور زمین کا دوسرا نصف تاریکی میں رہتا ہے۔ زمین اپنے محور پر گردش کرتی ہے اور روشنی وہی رہتی ہے۔ چناچہ نصف کرہ (زمین) کی شکل کا کچھ رقبہ چوبیس گھنٹے میں زمین کے چاروں طرف ایک چکر لگالیتا ہے جبکہ دوسرا نصف کرہ جو تاریکی میں رہ چکا ہے وہ بھی وہی چکر اتنے ہی وقت میں پورا کرلیتا ہے اور یوں دن اور رات کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ اور اسی سے تاریخ، یعنی دن، ہفتہ، مہینہ اور سال پھر صدیوں کا حساب کتاب کرلیا جاتا ہے۔ ہے نا ! یہ شان کریمی۔ کس قدر مہربانیاں، رحمتیں اور برکتیں اس ارحم الراحمین نے ہم بندوں پر بالکل مفت کر رکھی ہیں، پھر کچھ بیوقوف لوگ اللہ سے شرک اور کفر کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے قدم قدم پر اس کی نشانیاں موجود ہیں جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اللہ ایک ہے، عظیم ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور یہ دنیا ضرور فنا ہوجائے گی ہم سب دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے، سزا اور جزا ضرور ملے گی، پھر بھی ہم غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے اور ہمیں ان اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ (1) اخلاقی کمال کی اعلیٰ ترین صورت رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ (2) اہل حق کا ہر عمل صرف رضائے الٰہی کی خاطر ہوتا ہے۔ (3) اہل حق کی دوستی اور دشمنی کا معیار بھی رضائے الٰہی کا نصب العین ہوتا ہے۔ ” اے ہمارے رب جب تو ہمیں ہدایت کرچکا تو ہمارے دلوں کو نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطا فرما، بیشک تو بہت زیادہ دینے والا ہے۔ “ (سورۃ آل عمران آیت 8)
Top