Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 9
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن يَهْدِيْ : رہنمائی کرتا ہے لِلَّتِيْ : اس کے لیے جو ھِيَ : وہ اَقْوَمُ : سب سے سیدھی وَيُبَشِّرُ : اور بشارت دیتا ہے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ : کہ لَهُمْ : ان کے لیے اَجْرًا كَبِيْرًا : بڑا اجر
بیشک یہ قرآن راہ دکھاتا ہے اس طریقے کی طرف جو سب سے زیادہ درست ہے اور خوشخبری دیتا ہے ، ایمان والوں کو جو اچھے کام کرتے ہیں ، بیشک ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔
ربط آیات : سورة ہذا کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے معراج جیسی عظیم نعمت کا ذکر کیا جو اس نے اپنے مقرب بندے اور آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر کی ، پھر اللہ نے یہ احسان بھی جتلا یا کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی ، پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکر گزاری ہی کا ذکر کیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو نجات دی ، اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں اور ناشکر گزاروں پر آنے والے مصائب وآلام کا تذکرہ بھی اشارۃ کیا ، نوح (علیہ السلام) کی قوم انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخالفت ، کفر وشرک پر اصرار اور قیامت کے انکار کی وجہ سے ہلاک کی گئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے نبی اسرائیل کی سرکشی کا حال بیان فرمایا کہ انہوں نے دو دفعہ سرکشی اختیار کی تو اللہ نے انہیں دونوں دفعہ ان پر جابر حکمرانوں کو مسلط کو کے ذلیل ورسوا کیا ، اللہ تعالیٰ انہیں بار بار سمجھاتا رہا کہ اگر سرکشی سے باز آجاؤ اور نیکی کا راستہ اختیار کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا ورنہ تمام کافروں ، مشرکوں اور مجرموں کے لیے آخرت کا عذاب یعنی جہنم کا قید خانہ تو موجود ہے ، درمیان میں ایمان والوں کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ اگر تم بھی بنی اسرائیل کے راستے پر چلو گے تو تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا ۔ (قرآن بطور راہ ہدایت) گذشتہ سے پیوستہ درس میں بنی اسرائیل کو کتاب ہدایت عطا کرنے کا تذکرہ ہوچکا ہے ، وہاں میں عرض کردیا تھا کہ یہ تذکرہ دراصل قرآن کریم کے متعلق آج کی آیت کی تمہید تھا ، چناچہ آج کے درس کی پہلی آیت میں قرآن پاک کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم “۔ بیشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اس راستے کی طرف جو سب سے زیادہ سیدھا اور درست ہے گویا قرآن حکیم تورات سے بھی زیادہ فضلیت والی کتاب ہے ، تورات صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تھی جب کہ یہ کتاب اللہ نے تمام بنی نوع انسان کے لیے اتاری ، یہ کتاب انسان کی فکر ، اس کے اعضا ، جوارح اور تمام قوی کو ایسی شاہراہ پر لگاتی ہے جس پر چل کر انسان ہمیشہ کے لیے فلاح پاسکتے ہیں۔ اقوم “ کا معنی درست اور سیدھی راہ ہے ” للتی “ کا صلہ راستہ بھی ہو سکتا ہے اور ملت بھی مفسرین کرام فرماتے ہیں قرآن راہ ہدایت ہے جو انسان کے ظاہر اور باطن کی درستگی کا سامان مہیا کرتا ہے یا یہ اس ملت کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ درست ہے اور وہ ملت ابراہیمی یا ملت اسلام ہے ملت اسلامیہ ایسی ملت ہے جس مقابلے کی کوئی ملت ، مذہب اور طریقہ نہیں ہے ۔ (اہل ایمان کے لیے بشارت) اب یہود ونصاری کا فرض بھی یہ ہے کہ وہ اسی راستے کو اختیار کریں جس کے بغیر فلاح کی کوئی صورت نہیں ، اس راستے پر چلنے والے مومنین کے متعلق فرمایا (آیت) ” ویبشرالمؤمنین “ ۔ قرآن حکیم اہل ایمان کو بشارت سناتا ہے ترغیب وترہیب بھی دین کے اہم مقاصد میں سے ہے ، جہاں قرآن پاک برائیوں کے انجام سے ڈرتا ہے وہاں نیکیوں کے انجام کے خوشخبری بھی سناتا ہے ، تو یہ خوشی کی بات ہے کہ قرآن ایمان لانے والوں کو خوشخبری سناتا ہے ، اور ایمان لانے والے کو خوشخبری سناتا ہے ، اور ایمان لانے والے کون ہیں (آیت) ” الذین یعملون الصلحت “۔ جو فکر کی درستگی کے بعد نیک اعمال انجام دے رہے ہیں فکر تو انہوں نے ایمان لا کر درست کر ی ، اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کیا ، خدا کی صفات ، انبیاء کی رسالت ، ملائکہ اور کتب سماویہ پر ایمان لائے ، اور صالحات میں ہر قسم کی نیکیاں شامل ہیں ، بنیادی طور پر نماز روزہ ، زکوۃ ، حج اور جہاد نیک اعمال ہیں ان کے علاوہ ہر وہ عمل جسے شریعت نے اچھا عمل تسلیم کیا ہے وہ بھی نیک عمل ہوگا ، پھر یہ ہے کہ نیک اعمال قلوب سے بھی ہو سکتے ہیں ، جیسے کسی دوسرے کے بارے میں اچھی نیت رکھنا اور اس کے متعلق اچھا گمان کرنا نیکی میں داخل ہے (آیت) ” قولوا للناس حسنا “۔ (البقرہ) یعنی زبان سے اچھی بات نکالنا بھی نیک عمل ہے ، اس کے علاوہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نیکی میں داخل ہے فرمایا ایمان لانے کے بعد جو نیک اعمال انجام دیتے ہیں (آیت) ” ان لھم اجرا کبیرا “۔ بیشک ان کے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے اس کے نتیجے میں وہ لوگ خوش کام اور فائز المرام ہوں گے قرآن ان کو بشارت دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوجائیں گے ۔ (ترغیب کے بعد ترہیب) ترغیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ترہیب بھی بیان فرمائی ہے ، اہل ایمان کی کامیابی کا ذکر کر کے نافرمانوں کی سزا کا بھی ذکر کرکے نافرمانوں کی سزا کا ذکر بھی کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان الذین لایؤمنون بالاخرۃ “۔ اور جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ، قرآن ان کو خبردار کرتا ہے ، ظاہر ہے کہ جو شخص آخرت کے محاسبے کو ہی تسلیم نہیں کرتا ، وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا ، تو ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اعتدنا لھم عذابا الیما “۔ ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ، یہ نہایت ہی خطرناک اور دکھ دینے والا عذاب ہے غرضیکہ ترغیب وترہیب کا کام صرف قرآن پاک نہیں کرتا بلکہ خود انبیاء کرام بھی یہ فریضہ ادا کرتے ہیں ، خود قرآن پاک کا بیان ہے ” (آیت) ” رسلا مبشرین ومنذرین “۔ (النسائ) ہم نے رسولوں کو خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے بنا کر بھیجا ہے تاکہ لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے ۔ (اپنے حق میں بدعا) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے ایک گوشے کو بےنقاب کیا ہے ، اور یہ ہے کہ (آیت) ” ویدع الانسان بالشر دعآء ہ بالخیر “۔ اور مانگتا ہے انسان برائی کو جیسا کہ وہ مانگتا ہے بھلائی کو ، بھلائی تو ہر آدمی چاہتا ہے اور ہر وقت اسے طلب بھی کرتا رہتا ہے ، مگر بعض اوقات اپنے منہ سے برائی بھی مانگ لیتا ہے ، اس کی مثال خود قرآن پاک نے بھی پیش کی ہے مشرکین مکہ میں سے بعض ایسے بھی تھے جو کہتے تھے (آیت) ” اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوائتنا بعذاب الیم “۔ (الانفال) اے اللہ ! اگر محمد کا لایا ہوا دین تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی ہم پر درد ناک عذاب بھیج دے ، انسان کی بیوقوفی کا اندازہ لگائیں کہ ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر دور نکل جاتے ہیں کہ خود اپنی زبان سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہتے تھے کہ توحید ، رسالت اور معاد کے متعلق حضور ﷺ کا نظریہ درست ہے ، تو ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ، بیشک تو ہمیں نیست ونابود ہی کیوں نہ کر دے اسی سورة میں آگے کفار کا بھی اسی قسم کا بیان آرہا ہے ، وہ کہتے تھے (آیت) ” اوتسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا “۔ بیشک ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے ، ہم اس دین کو ماننے کے لیے تیار نہیں ، انسان کا بھلائی کی بجائے برائی کا طلب کرنا نہایت ہی قبیح بات ہے ، اسی لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ غصے کی حالت میں جلد بازی میں اپنے یا اپنے اہل و عیال یا اپنے مال کے لیے بددعا نہ کر بیٹھو حدیث شریف کے الفاظ ہیں لا تدعوا علی انفسکم ولا اموالکم ولا علی اھلکم “۔ (مسلم) بعض گھڑیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دعا قبول ہوجاتی ہے ، اگر ایسے ہی وقت میں تمہاری زبان سے کوئی بددعا نکل گئی تو تمہیں نقصان پہنچ جائے گا اور پھر تم کف افسوس ملنے لگو گے ، لہذا اپنے یا دوست احباب یا اولاد یا مال کے خلاف بددعا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے کہ یہ چیز عجلت میں داخل ہے ۔ (حضور ﷺ کی خصوصیت) دعا کے بارے میں صرف پیغمبر خدا ﷺ کو خصوصیت حاصل ہے ، آپ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے پروردگار سے یہ شرط طے کر رکھی ہے کہ میں بھی انسان ہوں کبھی غصہ بھی آجاتا ہے ، لہذا اگر میں کسی کے حق میں بددعا کروں جس کا وہ مستحق نہ ہو ، تو میری بددعا کو اس کے حق میں رحمت اور پاکیزگی بنادے ، تو حضور ﷺ کی دعا صرف اسی شخص کو لگے گی جو اس کا مستحق ہوگا ، امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے ایک قیدی کو حضرت سودہ ؓ کے سپرد کیا ، جب اس قیدی کو رسیوں سے جکڑا گیا تو وہ کر اہنے لگا ، حضرت سودہ ؓ کے دریافت کرنے پر قیدی نے بتایا کہ اس کی رسی سخت کسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسے تکلیف ہے آپ نے اس پر رحم کرتے ہوئے رسی کو ذرا ڈھیلا کردیا ، پھر یہ ہوا کہ جبھی اس قیدی نے موقع پایا رسی کاٹ کر بھاگ گیا اس بات کی خبر حضور ﷺ تک پہنچی تو آپ نے حضرت سودہ ؓ کو بلا کر دریافت کیا ، انہوں نے پوری بات بیان کردی کہ میں نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کی رسی ڈھیلی کردی تھی جس کی وجہ سے قیدی بھاگ گیا ، اس پر حضور ﷺ کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا ” اللھم اقطع یدھا “۔ اے اللہ سودہ ؓ کے ہاتھ کاٹ دے کہ اس نے قیدی کے ساتھ کیوں رعایت کی ، یہ بددعا سن کر حضرت سودۃ ؓ سخت پریشان ہوئیں ، اپنے ہاتھوں کی طرف بار بار دیکھتی تھیں کہ کہیں حضور کی بددعا کی زد میں تو نہیں آگئیں ، آپ ﷺ نے فرمایا ، سودہ ؓ ! یہ بددعا نہیں لگے گی کوئی غیر مستحق شخص اس کی زد میں نہیں آئے گا اسی طرح ایک دفعہ حضور ﷺ نے امیر معاویہ ؓ کو طلب فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں ، دوبارہ بلایا تو پھر بھی یہی جواب ملا کر کھانا کھا رہے ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا ” ما اشبع اللہ بطنہ “۔ اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ، یہ بددعا بھی ان کو نہیں لگی کیونکہ وہ اس کے مستحق نہیں تھے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا حضور ﷺ نے فرمایا ، اللہ کے بندے ! دائیں سے کھاؤ ، وہ کہنے لگا کہ میرا دایاں ہاتھ اٹھتا ہی نہیں ، اس نے تکبر سے یہ بات کی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دایاں ہمیشہ کے لیے شل ہو کر رہ گیا ، کیونکہ حضور نے بددعا فرمائی تھی لا رفعھا اللہ “ اللہ تعالیٰ تیرے اس ہاتھ کو نہ ہی اٹھائے ، یہ شخص تکبر کی بنا پر بددعا کا مستحق ٹھہرا۔ حضور ﷺ نے نمازی کے آگے سے گزرنے کی سخت وعید فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص چالیس سال تک اپنی جگہ کھڑا رہے تو یہ نماز کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے بعض نے اسے چالیس ہفتے یا چالیس ماہ پر بھی محمول کیا ہے تاہم نمازی کی نماز میں خلل ڈالنا سخت معیوب ہے ، حضور ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے اسی طرح نماز میں خلل ڈالا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص ہمیشہ کے لیے معذور ہوگیا ۔ (انسان جلد باز ہے) بہرحال فرمایا کہ کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ غصے کی حالت میں جلد بازی کرتے ہوئے اپنے لیے ، اہل و عیال یا مال کے متعلق بددعا کرے فرمایا کتنی بری بات ہے کہ انسان اپنے لیے اسی طرح شر کو طلب کرتا ہے جس طرح کو خیر کو مانگتا ہے (آیت) ” وکان الانسان عجولا “۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا جلد باز ہے ، وہ جلد بازی میں بہت کچھ کر بیٹھتا ہے ، کافر لوگ اس جلد بازی کے نتیجے میں ہی اپنے لیے بددعا کر بیٹھتے ہیں ، قرآن پاک کا انکار جلد بازی کی وجہ سے ہی کرتے ہیں واقعہ معراج کی تکذیب بھی جلد بازی کا نتیجہ تھا ، لہذا انسان کی جلد بازی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے ۔
Top