Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 104
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ١ؕ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ
يَوْمَ : جس دن نَطْوِي : ہم لپیٹ لیں گے السَّمَآءَ : آسمان كَطَيِّ : جیسے لپیٹا جاتا ہے السِّجِلِّ : طومار لِلْكُتُبِ : تحریر کا کاغذ كَمَا بَدَاْنَآ : جیسے ہم نے ابتدا کی اَوَّلَ : پہلی خَلْقٍ : پیدائش نُّعِيْدُهٗ : ہم اسے لوٹا دیں گے وَعْدًا : وعدہ عَلَيْنَا : ہم پر اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم میں فٰعِلِيْنَ : (پورا) کرنے والے
اور وہ دن بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ کر رکھ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضامین کا کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کرنے کی ابتداء کی تھی اس طرح بغیر کسی دقت و دشواری کے ہم اس کو دوبارہ بھی پیدا کردیں گے یہ ہمارے ذمے ایک وعدہ ہے جسے ہم نے بہرحال پورا کرنا ہے2
140 جس دن آسمان کی بساط کو لپیٹ دیا جائے گا : سو قیا مت کی ہولناکی کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ جس دن کہ آسمان کو لکھے ہوئے کاغذ کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ سو اس سے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی عظمت شان کا کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور اسی مضمون سے متعلق دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ } ۔ (الزمر :67) سو کتنے ظالم اور کس قدر بےانصاف ہیں وہ لوگ جو اس ذات اقدس و اعلیٰ ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کے ساتھ اس کی عاجز مخلوق کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز آسمان کی بساط کو اس کے کواکب وغیرہ سمیت ایسے لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا جس طرح کہ طومار کو اپنے مضامین کے ساتھ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اور اس کے بدلے میں دوسرا آسمان لے آیا جائے گا ( المراغی، المحاسن وغیرہ ) ۔ اور اس طرح ایک نیا جہاں آباد کیا جائے گا جو نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ قائم ہوگا۔ جہاں بقاء ہوگی فنا نہیں ہوگی۔ وہ بدلہ اور جزا کا جہاں ہوگا عمل و آزمائش کا نہیں۔ جہاں کی جزا و سزا ہمیشہ کی ہوگی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ اس روز زمین و آسمان کی اس تمام بساط کو تبدیل کردیا جائے گا اور سب لوگ خدائے واحد وقہار کے حضور پیش ہوں گے۔ (ابراہیم :48) ۔ واضح رہے کہ " سجل " اس " دفتر "، " طومار " یا " فائل " کو کہا جاتا ہے جس میں لکھے ہوئے اوراق و مضامین کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ سو ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ جس دن ہم اس پھیلے ہوئے آسمان کو اس طرح لپیٹ کر رکھ دیں گے جس طرح طومار میں کاغذات کو لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور ایک نیا جہان سامنے لے آئیں گے۔ 141 ایک نئے جہان کی تخلیق وتکوین : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ اس روز اس آسمان کی بساط کو لپیٹ کر ایک نئے جہان کو پیدا کیا جائے گا جس طرح کہ ہم نے اس کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا بغیر کسی اصل و مادہ اور بدون کسی نمونہ و مثال کے۔ محض اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے۔ اور بغیر کسی شریک وسہیم کے۔ تو پھر ایسے وحدہ لا شریک قادر مطلق کا کوئی شریک وسہیم آخر کیسے اور کس طرح ہوسکتا ہے ؟ سو وہ ہر طرح کے تمام مشرکانہ تصورات سے پاک اور ہر شائبہ شرک سے اعلیٰ وبالا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو جس طرح ہم نے تم سب کو اے لوگو عدم محض سے نکال کر وجود بخشا اور تمہیں نیست سے ہست کیا اسی طرح ہم تمہیں پیدا کریں گے تاکہ تم اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا صلہ و بدلہ پا سکو۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہو سکیں ۔ { لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَی } ۔ ( طہ : 15) ۔ سو فیصلے کے اس یوم عظیم کے قیام اور ایک نئے جہان اور اس کے لیے نئے نوامیس و قوانین کے تحت ایک نئے جہان کی تخلیق وتکوین فرمائی جائے گی اور اس کے لیے نئے آسمان و زمین کو وجود بخشا جائے گا۔ جہاں ہمیشگی ہوگی کبھی موت و فنا نہیں ہوگی۔ جہاں کی جنت اور اس کی نعمتیں بھی ابدی ہونگی ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ اور جہاں کی دوزخ اور اس کے عذاب بھی دائمی ہوں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top