Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 118
لَّعَنَهُ اللّٰهُ١ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاۙ
لَّعَنَهُ اللّٰهُ : اللہ نے اس پر لعنت کی وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاَتَّخِذَنَّ : میں ضرور لوں گا مِنْ : سے عِبَادِكَ : تیرے بندے نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقررہ
جس پر اللہ نے لعنت کی ہے۔ اور کہا (شیطان نے) البتہ میں بنائوں گا تیرے بندوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہوا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی تھی اور ساتھ یہ بات بھی سمجھائی تھی کہ جو لوگ اللہ کے علاوہ غیروں کی پرستش کرتے ہیں۔ انہوں نے زنا ناموں سے دیویاں بنارکھی ہیں اور دراصل وہ شیطان کی پوجا کرتے ہیں۔ شیطان ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور ان کی تخیلات پر غالب آکر ان کو شرک پر آمادہ کرتا ہے حدیث شریف میں شیطان سے پناہ پکڑنے کے لیے اس دعا کا ذکر آتا ہے۔ اللھم انی اعوذ بک من شرالشطین وشرکہ اے اللہ ! میں شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔ اس لفظ کو شرک اور شرک دونوں طرح سے پڑھا گیا ہے۔ شرک کا معنی جال ہوتا ہے تو اگر ایسا ہے تو معنی ہوگا ، اے اللہ ! میں شیطان کے جال سے پناہ مانگتا ہوں ، اور شرک کا معنی تو ظاہر ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکا کر شرک میں مبتلا کرتا ہے۔ سورة نحل میں موجود ہے کہ شیطان کا غلبہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں والذین ھم بہ مشرکون اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں ۔ گویا شیطان ان لوگوں کے لیے شرک کا ذریعہ اور سبب بنتا ہے۔ بہرحال یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ تمام نیکیوں کی اصل الاصول توحید ہے اور تمام برائیوں کی جڑ بنیاد شرک ہے ۔ جو شخص شرک میں مبتلا ہوگیا ، اس کی بنیاد خراب ہوگئی اور بنیاد کی خرابی کی وجہ سے دین کی پوری عمارت ہی بگڑ گئی۔ اس لیے شرک کو اکبر الکبائر یعنی سب سے بڑا گناہ کہا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھادیا گیا کہ شرک کے ارتکاب میں شیطن کو بہت کچھ دخل حاصل ہے۔ چناچہ اگلی آیت میں شیطان کی کارگزاری کا ذکر ہے کہ وہ انسانوں کو کس طریقے سے شرک اور برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ شیطان بمقابلہ انسان جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا ابی واستکبر وکان من الکفرین تو اس نے انکار کردیا اور وہ کفر کرنے والوں میں ہوگیا۔ تمام فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی جب کہ شیطان اکڑ گیا اور پھر حجت بازی شروع کردی کہ میں انسان سے افضل ہوں ، اس لیے کہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین اے اللہ ! تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور انسان کو مٹی سے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ آدم (علیہ السلام) یک تخلیق شیطان کے سامنے ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کا مجسمہ بناکر رکھا تو شیطان نے گھوم پھ رکر اسے غور سے دیکھا ، انسان کا پیٹ خالی دیکھ کر شیطان نے اندازوہ لگایا کہ اس خالی جگہ میں وسوسہ ڈالنے کی گنجائش موجود ہے کیونکہ ٹھوس چیز میں تو کچھ داخل نہیں ہوسکتا مگر انسانی جسم اس قابل ہے کہ اس میں ایسی ویسی چیز داخل کی جاسکتی ہے۔ چناچہ اس نے انسان کو بہکانے کا پروگرام بنالیا۔ یہ حدیث کا مضمون ہے۔ بہرحال شیطان نے مٹی کو حقیر جانا۔ اسی سلسلے میں بشار ابن برو کا شعر ہے۔ ابلیس افضل من ابیکم اٰدم فتبینوا یا معشر الاشرار اے اشرار کے گروہ ! یاد رکھو ! ابلیس تمہارے جدا مجدآدم (علیہ السلام) سے افضل ہے النار عنصرہ وآدم طینۃ والطین لایسمو سموالنار ابلیس کا عنصر آگ ہے جو افضل ہے۔ اور آدم مٹی سے اور مٹی آگ کی بلندی تو حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ شیطان کا فلسفہ ہے کہ آدم مٹی ہے اور مٹی مخذول ہے۔ لہٰذا میں بلند ہو کر ایک پست کے سامنے کیسے جھک سکتا ہوں۔ مگر شیطان کو دھوکا ہوا۔ مٹی میں عاجزی ضرور ہے مگر اس خاکی عنصر میں جو برتری پائی جاتی ہے وہ کسی دوسرے عنصر (ELEMENT) ْمیں نہیں پائی جاتی۔ امام ابن قیم (رح) نے اپنی ایک کتاب میں پندرہ وجوہات بیا ن کی ہیں جن کی بناء پر مٹی کو آگ پر فوقیت حاصل ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ خاکی انسان میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات سے مستفید ہوسکتا ہے جب کہ ملائکہ بھی اللہ کی ذاتی تجلیات سے نہیں بلکہ اس کی صفاتی تجلیات سے ہی مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں اس قدر کمال رکھا ہے مگر شیطان نے اس کی عظمت کونہ پہنچانا ، لہٰذا اللہ کی بارگاہ سے مردود اور ملعون ٹھہرا۔ اس نے اسی وقت سے کہ دیا فبما اغویتنی تو نے مجھے گمراہ ٹھہرادیا ہے۔ لازینن لھم فی الارض ولاغوینھم اجمعین میں ان کے لیے دنیا کو مزین کرکے دکھائونگا اور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ اور دوسری آیت میں ہے ثمر لاتینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمائلھم یعنی اے اللہ ! میں تیری مخلوق کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں سے آئوں گا۔ یعنی ہر طرف سے آکر گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں آگے سے مراد دنیا اور پیچھے سے مراد عقبیٰ ہے اسی طرح دائیں سے مراد دین کا راستہ ہے اور بائیں سے مراد خواہشات کا راستہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ میں ہر طرح سے اگے گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا یہ بات شیطان نے قسم اٹھا کر کہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سمجھادیا کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ بعض دوسری سورتوں میں بھی اس مضمون کی وضاحت کی گئی ہے۔ سورة یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا الم اعھد الیکم لیبنی اٰدم ان لا تعبد والشیطن انہ لکم عدومبین اے بنی آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجا نہ کرنا ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ؟ سوۃ فاطر میں فرمایا ان الشیطن لکم عدوفاتخذوہ عدواً شیطان تمہارا دشمن ہے ، لہٰذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ یہ بڑا خطرناک دشمن ہے جو نظر بھی نہیں آتا۔ نظر آنے والے دشمن سے تو بچائو کیا جاسکتا ہے ، مگر نظر نہ آنے والا زیادہ خطرناک ہوتا ہے کہ نامعلوم کس طرف سے حملہ کردے۔ شیطان اور اس کی ذریت تو تمہیں دیکھ رہی ہے مگر من حیث لاترونھم تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ، اللہ تعالیٰ نے ایسا غیب کا پردہ رکھ دیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ مسجد میں اعتکاف فرما رہے تھے آپ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ آپ سے ملاقات کے لیے مسجد میں آئیں کچھ دیر آپ سے باتیں ہوئیں ، جب واپس جانے لگیں تو حضور ﷺ انہیں چھوڑنے کے لیے مسجد کے دروازے تک آئے۔ سامنے سے دوآدمی آرہے تھے ، انہوں نے جلدی جلدی قدم اٹھانے شروع کیے حضور ﷺ نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور پوچھا تم کون ہو ، وہ ٹھہر گئے اور اپنے نام بتائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، جان لو ! یہ میری بیوی صفیہ ؓ ہے ، کسی کام سے آئی تھی۔ انہوں نے عرض کیا ، حضور ! ہمارے دل میں تو کوئی ایسی بات نہیں آئی ، فرمایا تم نہیں جانتے ان الشیطن یجری من الانسان مجری الدم شیطان انسان کے اندر وہاں تک گھس جاتا ہے جہاں تک خون پہنچتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ یہ تمہارے دلوں میں کوئی وہم ڈال دے گا کہ رات کا وقت ہے ۔ حضور ﷺ اعتکاف فرما رہے ہیں اور یہ عورت کون ہے اور کیسے آئی ؟ تو حضور ﷺ نے شیطان کی شیطانیت سے آگاہ کردیا۔ کہ یہ انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ یہ خون کی طرف باریک سے باریک نسوں تک بھی پہنچ جاتا ہے اور پھر وسوسے ڈالتا ہے یہ ایسا خطرناک دشمن ہے۔ شیطان کا حصہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اپنی بارگاہ سے مردود کردیا تو اس نے اسی وقت کہہ دیا تھا ۔ وقال لاتخذن من عبادک نصیباً مفروضا میں تیرے بندوں میں سے ایک اچھے خاصے حصے کو گمراہ کردوں گا۔ بلکہ اکثریت میرے ساتھ ہوگی۔ اور تیرے فرمانبردار بندے اقلیت میں ہوں گے چناچہ ابتدا سے لے کر قیامت تک لوگوں کی اکثریت شیطان کے ساتھ رہے گی۔ اس وقت بھی دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سے سوا چار ارب لوگ کفر وشرک میں مبتلا ہیں اور پانچویں حصہ سے بھی کم انسان خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور پھر اس تعداد میں سے بھی ٹھیک طور پر ماننے والے بہت کم لوگ ہیں۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ نصیباً مفروضاً کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے کہا کہ میں انسانوں کی کمائی میں سے ایک حصہ اپنے لیے ٹھہرائوں گا۔ یعنی پیداوار کا جو حصہ غیر اللہ کی نذرونیاز میں صرف ہوگا وہ میرا حصہ ہوگا۔ سورة انعام میں تفصیل کے ساتھ یہ ذکر موجود ہے کہ مشرکین کھیتوں کی پیداوار اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اللہ کا ٹھہراتے تھے اور ایک اپنے شرکاء کے لیے مقرر کرتے تھے اور ان کی نذر ونیاز کرتے تھے۔ پھر یہ بھی کہ اللہ کا حصہ ادا کرنے میں احتیاط نہیں کرتے تھے مگر غیر اللہ کی نیاز میں سے ایک دانہ کی کمی بھی برداشت نہیں کرتے تھے ، ان کا حصہ پورا پورا ادا کرتے تھے اور کہتے تھے ھذا للہ بزعمھم وھذا لشرکا ئناً گویا ان مشرکوں کے گمان کے مطابق یہ حصہ اللہ کا ہے اور یہ ان کے شریکوں کا۔ آج بھی لوگ شرکیہ رسومات بڑے اہتمام سے ادا کرتے ہیں۔ فرائض سنن اور نوافل عبادات کی چنداں پروا نہیں کرتے۔ زکوۃ وصدقات کا فکر نہیں کرتے مگر گیارہویں بڑے اہتمام سے دیتے ہیں۔ یہ وہی ذہنیت کا رفرما ہے تو شیطان نے یہی کہا ہے کہ انسان کی کمائی میں سے میں ایک حصہ اپنے لیے ٹھہرالیتا ہوں۔ تو گویا نذر ونیاز میں بھی شرک ہوتا ہے۔ اللہ کے علاوہ غیروں کے تقرب اور خوشنودی کے لیے جو نیاز دی جاتی ہے وہ فعلی شرک ہوتا ہے کسی قبر والے ، کسی بزرگ ، پیر ، جن یا فرشتے کو نافع اور رضا ر سمجھ کر اس کے نام کی جو نذر ونیاز دی جاتی ہے ، وہ شیطان کا حصہ ہے انسان سمجھتا ہے کہ اگر غیر اللہ کا حصہ نہ نکالاتو نقصان ہوجائے گا۔ فصل ٹھیک نہیں پکے گی ، پھل پورا نہیں آئے گا یا گائے بھینس کے دودھ میں برکت نہیں ہوگی۔ اس قسم کا اعتقادی شرکیہ عقیدہ ہے۔ شیطانی فلسفہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ بھی کہا ولاضلنھم میں انہیں گمراہ کروں گا ، تیرے بندوں کو بہکائوں گا ولا منینھمان کو باطل آرزئوئیں دلائوں گا۔ شیطان نے ہر شرکیہ فعل کا کوئی نہ کوئی فلسفہ بنارکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ انسانوں کو ورغلاتا ہے ۔ ان کے اذہان میں ڈالتا ہے کہ یہ رسم ادا کرلو ، تو تمہاری بڑی عزت ہوگی ، گنبد بنالو ، جلوس نکالو ، جھنڈیاں لگائو ، تمہارا نام ہوگا ، لوگ تمہیں یاد رکھیں گے۔ طرح طرح کی باتیں بتا کر انہیں غلط راستے پر چلاتا ہے۔ جب کوئی آدمی کوئی الٹا سیدھا کام کرنے لگتا ہے تو پھر اس کے لیے جواز بھی خود ہی ڈھونڈ لیتا ہے۔ ایک بڑا تعلیم یافتہ آدمی جو ہندوستان کا وزیراعظم بھی رہا ہے ، صبح اٹھ کر اپنا پیشاب پیتا ہے ، اور اس کے لیے یہ فلسفہ گھڑا ہے کہ اس سے اسے صحت حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ پیشاب ، ہضم کا فضلہ اور گندی چیز ہے۔ میڈیکل سائنس والے ، یونانی طبیب اور ایلوپیتھک والے سب کے سب پیشاب کو مضر بتاتے ہیں مگر پینے والے کا اپنا فلسفہ ہے۔ جلال الدین اکبر ہندوستان کا بادشاہ تھا اور اس نے بھی ایک فلسفہ گھڑا تھا وہ صاحب علم نہیں تھا ، مگر ذہین تھا۔ سفر کے دوران پیدا ہوا۔ بارہ تیرہ سال گردش زمانہ کا شکار رہا ، اس لیے تعلیم حاصل نہ کرسکا ، ملا مبارک اور اس کے بیٹے ابوالفضل اور فیضی اس کے مشیر تھے۔ یہ گمراہ مولوی تھے۔ اکبر ان کے اشرے پر چلتا تھا۔ آخر گمراہی میں پڑگیا اپنے آپ کو خدا اور رسول سمجھتا تھا۔ نیا دین ایجاد کیا۔ داڑھی منڈوانے کا فلسفہ حواریوں نے یہ سمجھایا کہ یہ فوطوں کی رطوبت کو جذب کرلیتی ہے جس سے قرت مردمی گھٹ جاتی ہے داڑھی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ شیطانی فلسفہ تھا ، طب کے ساتھ اس کا تعلق نہیں مگر شیطان نے اس طرف لگادیا۔ بادشاہ نے داڑھی صاف کرائی تو باقی تو بھی ایسا ہی کرنے لگے۔ غیر اللہ کے ساتھ نسبت انسان کی گمراہی کے لیے شیطان نے یہ منصوبہ بھی بنایا ولامرنھم فلیبتکن اذان الانعام میں انہیں جانوروں کے کان کاٹنے کا حکم کروں گا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی جانوروں کے کان چھید کر انہیں آزاد کردیا جاتا تھا اس کسی بت کے نام پر منسوب کردیا جاتا اور اس کا دودھ وغیرہ استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اگلی سورة میں اسی ضمن میں بحیرہ کا لفظ آئے گا۔ تو یہ شیطان نے اللہ کے حضور اسی وقت کہ دیا تھا کہ تیرے بندوں کو اس طریقے سے بھی گمراہ کروں گا کہ وہ جانوروں کو غیر اللہ کے نام سے منسوب کریں گے۔ چناچہ ایسا ہوتا رہا آج بھی لوگ سر کے اگلے یا پچھلے حصے میں کسی بزرگ کے نام کی چوٹی رکھتے ہیں ۔ کوئی ہاتھ یا پائوں میں کسی بزرگ کی نشانی کے طور پر لوہے کا کڑا ڈال لیتا ہے کہ یہ فلاں بزرگ نے دیا تھا۔ شیطان نے یہ بھی کہاولامرنھم فلیغیرن خلق اللہ میں انہیں حکم دوں گا یعنی ورغلائوں گا اور وہ اللہ کی بنائی ہوئی چیز کو تبدیل کر گے فطرت کی تبدیلی میں بھی شیطانی فلسفہ کار فرما ہے ، جس سے وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ۔ ملوکیت کے زمانے میں بادشاہ جن لوگوں کو گھر میں رکھتے تھے انہیں خصی بنادیتے تھے ۔ یہ فطرت کی تبدیلی اور حرام ہے۔ اسی طرح لواطت بھی غیر فطری چیز ہے مگر شیطن اس پر بھی آمادہ کرتا ہے۔ عورتوں کا آپس میں جنسی التفات بھی شیطانی امور سے ہے۔ اسی طرح جانوروں کے ساتھ غیر فطری فعل ہے۔ آج سے تیس سال پہلے اخبار میں پڑھا تھا ، کہ ڈنمارک کے ایک چھبیس سالہ نوجوان نے جنس تبدیل کرنے کے لیے کئی اپریشن کرائے ، کم وبیش دوہزار انجکشن لگوائے اور آخر کار وہ مرد سے عورت بننے میں کامیاب ہوگیا۔ بعض عورتوں کو مرد بننے کا خبط ہوتا ہے۔ یہ سب غیر فطری باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ جو ایک دوسرے کی ضع قطع ، چال ڈھال ، لباس اور سٹائل اپناتے ہیں۔ لعن اللہ المتشبھین بالنساء ووالمتشبھات بالرجالمردوں پر خدا کی لعنت ہو کہ وہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ عورتیں ملعون ہیں جو مردوں کا سٹائل اپناتی ہیں۔ امام رازی (رح) داڑھی منڈوانے کو بھی اسی مد میں شمار کرتے ہیں۔ عورت کا سر کے بامنڈوانا اور مرد کا داڑھی منڈوانا ایک ہی قبیل سے ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان کہ یہود ، ہنود اور مجوس کے ساتھ مشابہت نہ رکھو۔ داڑھی بڑھائو اور مونچھیں کٹوائو ، مگر شیطان نے الٹا سبق سکھلایا ہے۔ اب داڑھی منڈائی جاتی ہے اور مونچھیں بڑھائی جاتی ہیں۔ حضور (علیہ السلام) نے فرمایا لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ جو عورت اپنے سر کے بال دوسری عورت کو دیتی ہے تاکہ اس کے بال بھی لمبے نظر آئیں ، اللہ نے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ، سرمہ ، کنگھی ، ریشمی پر اندہ وغیرہ تو جائز ہیں۔ عورتوں کو رنگین اور منقش لباس پہننا بھی درست ہے ، مگر غیر فطری زیبائش کی اجازت نہیں۔ اسی طرح بالوں کو چنذ کر باریک ابروبنانا ، اسپر بھی لعنت کی گئی ہے دانتوں کے درمیان مصنوعی فاصلہ بنانا ، ہاتھوں ، پائوں ، ٹانگوں یا پیشانی پر نقش ونگار بنانا سب غیر فطری چیزیں ہیں۔ یہی تغیر فطرت ہے ، شیطان نے کہا تھا ۔ کہ اے اللہ ! میں تیرے بندوں کو ورغلا کر ایسی چیزوں پر آمادہ کروں گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مشرک بنادیتے ہیں ، جس قسم کا ماحول ہوتا ہے ، اس کے مطابق انسان ڈھل جاتا ہے جب کوئی شخص اپنی فطرت سلیمہ سے ہٹ گیا تو اس کی فطرت میں تغیر آگیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام میں تبدیلی بھی تغیر فطرت ہے۔ حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرا ردینا فطرت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ بعض مشرک لوگ اللہ کے حلال کردہ جانوروں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ کس دین اور شریعت سے انہیں حرام کیا ہے ؟ اسی طرح شرک کی تمام قسمیں خلاف فطرت ہیں یہ احکام کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔ انسانی فطرت تو یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے مگر مشرک لوگ شرک کا ارتکاب کرکے انسانی فطرت کو تبدیل کردیتے ہیں۔ یہی وہ تغیر فطرت ہے جس کا اعلان شیطان نے روز اول کیا تھا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرکے اس پر آمادہ کرے گا۔ حضرت مولانا شیخ الہند (رح) فرماتے ہیں کہ دیکھو شیطان نے کس طرح کہ ا کہ جو لوگ میرے حصے میں آئیں گے ، میں انہیں طریق حق سے گمراہ کروں گا۔ انہیں دنیا کی خوراہشات کا گرویدہ بنادوں گا اور روز قیامت اور جزا وسزا سے بےنیاز کردوں گا۔ میں لوگوں کو اس بات کی تعلیم دوں گا کہ وہ جانوروں کو کاٹ چیر کر غیر اللہ کی طرف منسوب کریں اور انہیں معبودان باطلہ کے نام پر چھوڑ دیں۔ میں انہیں اس بات پر بھی آمادہ کروں گا کہ وہ فطرت کو بدل ڈالیں اللہ کی پیدا کی ہوئی صورتوں میں تغیر وتبدل کریں ، غیر اللہ کی نشانی کے طور پر کڑا وغیرہ پہنیں اور سر پر چوٹی رکھیں۔ میں لوگوں کو غلط ملط آرزوئیں دلائوں گا جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو پست پشت ڈال دیں گے اور میرے پیچھے لگ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کہ شیطان کا اتباع کرے گا ، وہ اس کے حصے میں آ گیا۔ شیطان کی دوستی فرمایا ومن یتخذ الشیطن ولیاً من دون اللہ جس نے اللہ کے علاوہ شیطان کو دوست بنالیا فقد خسر خسراناً مبیناًبے شک وہ صریح خسارے میں جاپڑا۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی عاقبت خراب ہوگئی۔ وہ ابد الآباد تک جہنم میں رہے گا اور وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی فرمایا یعدھم ویمنیھم شیطان انہیں جھوٹے وعدے اور جھوٹی آرزوئیں دلاتا ہے ۔ وہ گناہ کو مزین کرکے دکھاتا ہے کہ اس میں بڑا فائدہ ہے راستے اختیار کرلو۔ کفر ، شرک ، بدعات اور غلط رسومات کی ترغیب دے کر انہیں اپنا دوست بناتا ہے۔ فرمایا یعدھم الشطین الاغروراً شیطان تو انہیں محض دھوکے اور فریب کا وعدہ دیتا ہے وہ جو کچھ لوگوں کو دکھاتا ہے ، سب سراب ہوتا ہے ، جب انسان آخرت میں پہنچے گا ، تو پتہ چلے گا کہ اس کے اعمال میں کچھ بھی نہیں ۔ وہ جو کچھ کرتا رہا ، شیطان کے بہکاوے میں آکر کرتا رہا اور اللہ کے پاس ایسے اعمال کا کچھ اجر نہیں اس دھوکے کا نتیجہ یہ ہوگا اولئک ماوئھم جنھم ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ولا یجدون عنھا میحصاً پھر جہنم سے خلاصی کی کوئی جگہ نہ پائیں گے۔ شیطان کی دوستی کرنے والوں کے لیے جہنم سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ شیطانی گروہ کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے جماعت حقہ کا ذکر بھی فرمایا ہے والذین امنوا وعملوا الصلحتجو لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کے رسولوں ، کتابوں ، ملائکہ ، جنت ، دوزخ اور اس کی نازل کردہ شریعت پر ایمان لائے اور ساتھ ساتھ اچھے اعمال منجملہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، خیرات ، جہاد ، انسانی ہمدردی وغیرہ بھی انجام دئیے۔ فرمایا یہی جماعت حقہ ہے۔ سندخلھم جنت ہم انہیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے تجری من تحتھا الانھار جن کے سامنے نہریں بہتی ہونگی۔ خلدین فیھا ابداً وان باغات میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے۔ فرمایا وعد اللہ حقاً یہ اللہ تعالیٰ کا پکا سچا وعدہ ہے کہ نیک اعمال کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے والا جنت میں داخل ہوگا۔ اور کفر وشرک کا مرتکب جہنم میں جائے گا۔ ومن اصدق من اللہ قیلاً اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے وہ احکم الحاکمین ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ کے وعدے پر یقین کرتے ہوئے ایمان ، توحید اور نیکی کو اختیار کرے تاکہ اسے ہمیشہ کے لیے فلاح حاصل ہوجائے۔ اور اللہ نے جن باتوں سے منع کیا ہے انہیں نقصان کا باعث کہا ہے ان سے باز آجائے۔ اور اللہ کے سچے وعدے کے مطابق اپنا ٹھکانا بہشت میں بنالے۔
Top