Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 67
فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ
فَاَمَّا : سو لیکن مَنْ تَابَ : جس نے توبہ کی وَاٰمَنَ : اور ایمان لایا وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَعَسٰٓي : تو امید ہے اَنْ يَّكُوْنَ : کہ وہ ہو مِنَ : سے الْمُفْلِحِيْنَ : کامیابی پانے والے
البتہ جس نے سچی توبہ کی ہوگی اور اس نے صدق دل سے ایمان لا کر کام بھی نیک کئے ہوں تو ایسا شخص امید ہے فلاح پانے والوں میں سے ہوگا
93 ایمان والوں کیلئے فوز و فلاح کی بشارت : { عَسیٰ } یعنی " امید ہے " کا یہ ارشاد ربانی یقین سے بھی کہیں بڑھ کر یقینی ہے۔ کیونکہ یہ ارحم الراحمین اور اصدق القائلین ۔ جل و علا ۔ کے کلام صدق نظام میں واقع ہوا ہے۔ جہاں اتنی یقین دہانی بھی بہت بڑی چیز ہے۔ اور یوں بادشاہوں کے تکلم و تخاطب کا انداز بھی اسی طرح کا ہوتا ہے۔ تو پھر بادشاہوں کے بادشاہ رب العالمین حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی شان اقدس و اعلیٰ کے کہنے ہی کیا ؟ اسی لئے مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ ۔ " التّرجّی فی القرآن بمعنی التّحقیق لِاَنّہٰ وَعْدٌ کَرِیْمٌ مِنَ رَّبٍ رَّحِیْمٍ وَ مِنْ شَانِہٖ سُبْحَانَہٗ وَتعالٰی اَنَہٗ لَا یُخْلِفُ وَعَدُہٓ ۔ " (صفوۃ، مراغی، المحاسن وغیرہ) ۔ سو حضرت حق ۔ جل جلالہ ۔ کے کلام صدق نظام میں جو " عسٰی " اور " لعل " جیسے کلمات ترجی سے امیدیں دلائی گئی ہیں وہ اس کے بندوں کے لئے بڑا سہارا ہیں۔ دوسری بات اس ضمن میں یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس سے ہمیں یہ سبق بھی مل رہا ہے کہ اپنے اعمال پر کبھی مست نہیں ہونا چاہیئے بلکہ مومن صادق کو ہمیشہ ڈرتے ہی رہنا چاہیئے کیونکہ اس کا وعدہ تو بلاشبہ ہر لحاظ سے اور سب سے زیادہ پختہ و قوی ہے۔ مگر کیا ہمارے اعمال اس قابل ہیں بھی کہ اس کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ میں شرف قبولیت پاس کیں ؟ سو خطرہ اور خدشہ اگر ہے تو اسی اعتبار سے ہے۔ لہذا ہمیشہ اپنی نیت اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگے رہنا چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ توفیق و عنایت سے نوازے ۔ آمین۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں ان خوش نصیب لوگوں کیلئے فوز و فلاح کی عظیم الشان بشارت ہے جو اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ایمان اور عمل صالح کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top