Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 67
فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ
فَاَمَّا : سو لیکن مَنْ تَابَ : جس نے توبہ کی وَاٰمَنَ : اور ایمان لایا وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَعَسٰٓي : تو امید ہے اَنْ يَّكُوْنَ : کہ وہ ہو مِنَ : سے الْمُفْلِحِيْنَ : کامیابی پانے والے
ہاں ! جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیے یقینا وہ کامیاب و کامران لوگوں میں سے ہوگا
فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَـعَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ ۔ (القصص : 67) (ہاں ! جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیے یقینا وہ کامیاب و کامران لوگوں میں سے ہوگا۔ ) اہلِ ایمان کے لیے فلاح کی بشارت جن لوگوں نے شرک کو زندگی کا دستورالعمل بنائے رکھا اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ان کا ہولناک انجام بیان کرنے کے بعد اب انسانوں کے لیے کامیابی و کامرانی کے ایک راستہ کی نوید سنائی گئی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس طرح گمراہ لوگوں کو جہنم کا ایندھن بنائے گا اسی طرح بہت سے لوگ اس کی بارگاہ سے نوازے بھی جائیں گے۔ ان میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے ہر باطل عقیدہ اور ہر غلط عمل سے توبہ کی۔ پیغمبر کی دعوت پر ایمان لائے اور اپنے ہر قول و فعل کے لیے شریعت کو میزان بنایا۔ اگر ان کے ایمان و عمل اور اخلاص وتقویٰ میں کوئی کمی نہ رہی تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کامیاب و کامران لوگوں میں شمار ہوں گے۔ عَسٰٓی… یوں تو عربی زبان میں امید کے معنی میں آتا ہے، لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو پھر وعدہ اور بشارت کا مفہوم اس کے اندر مضمر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ کبھی اپنا وعدہ نہیں توڑ تا اس لیے اسے یقین کے معنی میں لیا جاسکتا ہے۔
Top