Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 50
قَالُوْۤا اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِیْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ؕ قَالُوْا فَادْعُوْا١ۚ وَ مَا دُعٰٓؤُا الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۠   ۧ
قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اَوَ لَمْ تَكُ : کیا نہیں تھے تَاْتِيْكُمْ : تمہارے پاس آتے رُسُلُكُمْ : تمہارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ ۭ : نشانیوں کے ساتھ قَالُوْا بَلٰى ۭ : وہ کہیں گے ہاں قَالُوْا : وہ کہیں گے فَادْعُوْا ۚ : تو تم پکارو وَمَا دُعٰٓؤُا : اور نہ ہوگی پکار الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کی اِلَّا فِيْ : مگر۔ میں ضَلٰلٍ : گمراہی (بےسود)
وہ (اس کے جواب میں ان سے) کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس رسول نہیں آیا کرتے تھے کھلے دلائل کے ساتھ ؟ وہ کہیں گے ہاں اس پر دوزخ کے وہ اہلکار ان سے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعاء (و درخواست) کرلو مگر (یاد رہے کہ) کافروں کی (درخواست و) پکار بےسود محض ہے2
98 دوزخ کے کارندوں کا اہل دوزخ کو رسوا کن جواب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس پر دوزخ کے کارندے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلے دلائل کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ وہ کہیں گے کہ ہاں کیوں نہیں۔ اس پر دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعا و درخواست کرو۔ کہ جب تم نے جان بوجھ کر حق کو چھوڑا اور اس کے پہنچ چکنے کے بعد تم نے اس سے منہ موڑا اور تم پر حجت تمام ہوگئی تو اب اپنی درخواست تم خود ہی پیش کرو۔ پس تم جیسے لوگوں کی کوئی درخواست ہم نہیں پیش کرسکتے کہ اسکا کوئی فائدہ نہیں۔ سو رسولوں کی دعوت سے منہ موڑنا اور ان کی تکذیب کرنا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جرموں کا جرم اور محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور دوزخیوں کے اس اقرار و اعتراف کا ذکر قرآن حکیم میں کئی جگہ فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورة مومنون میں ارشاد فرمایا گیا کہ جب اللہ پاک دوزخیوں سے فرمائے گا کہ کیا یہ امر واقع نہیں ہے کہ میری آیتیں تم لوگوں کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں مگر تم انکو جھٹلاتے رہے تھے ؟ تو اس کے جواب میں وہ کہیں گے کہ ہاں اے ہمارے رب لیکن ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی۔ جس سے ہم گمراہ کے گمراہ ہی رہے۔ اسی طرح سورة ملک میں آیت نمبر 6 سے آیت نمبر 9 تک ذکر فرمایا گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ جل و علا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ 99 کافروں کی دعا اکارت و بےسود : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و تاکید کے اسلوب میں ارشاد کیا گیا کہ کافروں کی دعا و پکار محض اکارت ہے۔ سو کافروں کی دعا و پکار کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ مگر یہ آخرت کی بات ہے۔ باقی دنیا میں اگر کافر کی دعا سن لی جائے تو وہ اس کے خلاف نہیں۔ یہاں کے لئے تو اَکْفَرُ الْکَافِرین ابلیس لعین کی دعا بھی سن لی گئی۔ کیونکہ آخرت میں کفار کے بارے میں یہ طے فرما دیا گیا کہ وہاں نہ تو ان سے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی کسی طرح کی کوئی مدد کی جائے گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اُوْلٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا بالآخِرَۃِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنْصُرُوْنَ } ۔ (البقرۃ : 86) نیز فرمایا گیا ۔ { خَالِدِیْنَ فِیْہَا لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ } ۔ (البقرۃ : 162) ۔ نیز دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { اُوْلٓئِکَ جَزَائُ ہُمْ اَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ، خَالِدِیْنَ فَیْہَا لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ } ۔ (آل عمران :87- 88) وغیرہ وغیرہ۔ سو جس کافر کا یہ انجام ہونے والا ہے اس کو اگر دنیا ساری کی دولت بھی مل جائے تو بھی اس کو کیا ملا ؟ ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا ۔ بہرکیف ان نصوص کریمہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ آخرت میں کافر کی دعا و پکار کا کوئی نتیجہ اور فائدہ نہیں ہوگا۔
Top