Siraj-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 50
قَالُوْۤا اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِیْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ؕ قَالُوْا فَادْعُوْا١ۚ وَ مَا دُعٰٓؤُا الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۠   ۧ
قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اَوَ لَمْ تَكُ : کیا نہیں تھے تَاْتِيْكُمْ : تمہارے پاس آتے رُسُلُكُمْ : تمہارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ ۭ : نشانیوں کے ساتھ قَالُوْا بَلٰى ۭ : وہ کہیں گے ہاں قَالُوْا : وہ کہیں گے فَادْعُوْا ۚ : تو تم پکارو وَمَا دُعٰٓؤُا : اور نہ ہوگی پکار الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کی اِلَّا فِيْ : مگر۔ میں ضَلٰلٍ : گمراہی (بےسود)
وہ کہیں گے کیا تمہارے رسول معجزے لے کر تمہارے پاس نہ آئے تھے ؟ کہیں گے کیوں نہیں ۔ کہیں گے پھر تم ہی پکارو اور کافروں کی پکار کچھ نہیں ۔ مگر بہکنا (ف 1) یعنی بالکل بےسود ہے
1: غرض یہ ہے کہ وہ مقام ہوگا جہاں ارادت اور عقیدت کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور ہر شخص اپنی ذاتی ذمہ داری کو محسوس کرے گا ۔ اس وقت معلوم ہوگا ۔ کہ حاملین ملت ومقتدائے دین کس درجہ مکار تھے اور کیونکر کمزور استعداد کے لوگوں کو گمراہ کرتے تھے ۔ پھر جب یہ لوگ دیکھیں گے ۔ کہ یہ کبراء تو کچھ نہیں کرسکتے ۔ تو فرشتوں سے کہیں گے ۔ تم ہی ہمارے لئے تخفیف عذاب کی دعا کرو ۔ وہ کہیں گے اب تو دعا کا کوئی موقع ہی نہیں رہا ۔ کیا تمہارے پاس انبیاء ورسل نہیں آئے تھے اور کیا انہوں نے دلائل و شواہد سے تمہیں نہیں نوازا تھا ۔ تم نے اس وقت کیوں انکار کیا ۔ کیوں حق و صداقت کی تعلیم کو ٹھکرایا ۔ وہ جواباً کہیں گے ۔ یہ تو درست ہے ۔ کہ اللہ کے رسول آئے ۔ اور انہوں نے اپنا پیغام ہم تک پہنچایا ۔ یہ ہماری محرومی تھی کہ ہم ایمان کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوسکے ۔ فرشتے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعا کرو ۔ اور یہ معلوم ہے ۔ کہ کفار ومنکرین کی دعائیں محض بےاثر ہیں ۔ حل لغات :۔ فی ضلل ۔ یعنی معرض اندام میں یہ اس قبیل سے ہے کیدھم فی تضلیل ۔
Top