Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 50
قَالُوْۤا اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِیْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ؕ قَالُوْا فَادْعُوْا١ۚ وَ مَا دُعٰٓؤُا الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۠   ۧ
قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اَوَ لَمْ تَكُ : کیا نہیں تھے تَاْتِيْكُمْ : تمہارے پاس آتے رُسُلُكُمْ : تمہارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ ۭ : نشانیوں کے ساتھ قَالُوْا بَلٰى ۭ : وہ کہیں گے ہاں قَالُوْا : وہ کہیں گے فَادْعُوْا ۚ : تو تم پکارو وَمَا دُعٰٓؤُا : اور نہ ہوگی پکار الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کی اِلَّا فِيْ : مگر۔ میں ضَلٰلٍ : گمراہی (بےسود)
وہ کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے پیغمبر نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے۔ وہ کہیں گے کیوں نہیں تو وہ کہیں گے کہ تم ہی دعا کرو۔ اور کافروں کی دعا (اس روز) بےکار ہوگی
قالوا اولم تک تاتیکم رسلکم بالبینت قالوا بلی قالوا فاعودا وما دعوا الکفرین الا فی ضلل جہنم کے دربان کہیں گے : کیا تمہارے پیغمبر تمہارے پاس واضح احکام لے کر نہیں پہنچے تھے ؟ دوزخی کہیں گے : پہنچے کیوں نہ تھے۔ اس پر دوزخ کے کارندے کہیں گے : تو اب تم (خود) ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا محض بیکار ہے۔ اَوَلَمْ تَکُ تَأتِیْکُمْ استفہام انکاری ہے اور اس امر پر زجر کرنا مقصود ہے کہ تم نے دعا کا وقت اور قبول دعا کے اسباب کو کھو دیا۔ قَالُوْا فَادْعُوْا۔ فَادْعُوْا امر کا صیغہ ہے اور بطور استہزاء استعمال کیا گیا ہے ‘ اس سے مراد ہے ناامید بنا دینا۔ اِلاَّ فِیْ ضَلٰلٍ یعنی بیکار ‘ ناقابل قبول۔ یہ جملہ اللہ کا قول ہے ‘ یہ بھی ممکن ہے کہ دوزخ کے کارندوں کے کلام کا جزء ہو۔
Top