Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
کیا میں بہتر نہیں ہوں اس شخص سے جو کہ ذلیل ہے اور جو (اپنی بات بھی) کھول کر بیان نہیں کرسکتا ؟
68 فرعون کا حضرت موسیٰ کے مقابلے میں اپنی برتری کا دعویٰ : سو اس بدبخت نے کہا " کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جو کہ ذلیل ۔ اور بےقدرا ۔ ہے ؟ "۔ کہ نہ اس کے پاس دنیا کا کوئی مال و دولت ہے نہ حکومت و اقتدار۔ استفہام تقریری ہے یعنی یقینا میں ہی اس سے بہتر ہوں کہ میرے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔ اور اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سو مادی ترقی کا یہ پہلو بڑا ہی خطرناک ہے کہ اس کی بنا پر دنیا پرست انسان اپنے آپ کو صحیح اور حق پر سمجھنے لگتا ہے۔ اور اس طرح اس کی حق سے دوری اور محرومی مزید بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ دائمی خسارے کے اس ہاوئے میں جا گرتا ہے جس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت اس کے لئے باقی نہیں رہتی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس لعین کا حضرت موسیٰ کو " مہین " کہنا اس اعتبار سے تھا کہ آپ ایک غلام قوم کے فرد تھے جو فرعون کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 69 فرعون کی طرف سے حضرت موسیٰ کی قوت بیانیہ پر طعنہ زنی : سو اس بدبخت نے حضرت موسیٰ کے بارے میں مزید کہا کہ یہ شخص کھول کر بیان بھی نہیں کرسکتا کہ عبرانی اور قبطی زبانیں آپس میں مختلف تھیں اور موسیٰ کی زبان عبرانی تھی۔ جبکہ اہل مصر کی زبان قبطی۔ (محاسن التاویل) ۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص دوسری زبان میں زیادہ طلاقت سے نہیں بول سکتا۔ نیز بچپن میں حضرت موسیٰ کی زبان میں کچھ لکنت بھی تھی مگر اس منحوس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ کی دعا قبول فرما کر ان کی لکنت کو دور فرما دیا تھا۔ چناچہ موسیٰ نے اپنی دعا میں یہ بھی عرض کیا تھا ۔ { وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوا قَوْلِیْ } ۔ جس کے جواب میں ارشاد ہوا تھا ۔ { قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یَا مُوْسٰی } ۔ (تفسیر المراغی، ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، تفسیر التحریر والتنویر لابن عاشور وغیرہ) ۔ سو حضرت موسیٰ کے بارے میں فرعون کی یہ طعن وتشنیع خود اس کی اپنی ہی حماقت و سفاہت کی دلیل اور اس کا ثبوت تھا۔ بہرکیف اس ملعون نے حضرت موسیٰ کی تحقیر و تذلیل کیلئے تین باتوں کا سہارا لیا۔ ایک یہ کہ ان کے پاس دنیاوی مال و دولت کچھ نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کا تعلق ایک غلام قوم سے ہے۔ اور تیسرے یہ کہ ان میں فصاحت و بلاغت بھی نہیں۔ یہ بات کھول کر بیان نہیں کرسکتے۔ جبکہ میرے اندر یہ تینوں باتیں موجود ہیں کہ میں مصر جیسے اس متمدن ملک کا بادشاہ ہوں اور حکمران قبیلہ یعنی رائل فیملی کا سربراہ اور ایک اہم شخصیت کا مالک ہوں۔ اور فصاحت و بلاغت میں بھی اس سے آگے ہوں۔ تو اب تم لوگ بتاؤ کہ میں بہتر ہوں یا یہ شخص ؟۔
Top