Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
اور (بھلا بتاؤ) کہ کیا میں افضل (نہیں) ہوں اس شخص سے جو بےوقعت ہے اور بولنا تک اسے نہیں آتا،39۔
39۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قومی برتری کی نفی تو فرعون ابھی اوپر کرچکا۔ اب ذاتی وشخصی تنقیص کررہا ہے۔ کہتا ہے۔ اسے تقریر تو آتی نہیں۔ (آیت) ” ام “۔ مفسرین اور اہل نحو کا ایک گروہ اس طرف بھی گیا ہے کہ ام یہاں کلمہ استفہام نہیں بلکہ بل کے مرادف ہے۔ ام بمعنی بل ولیس بحرف عطف علی قول اکثر المفسرین (معالم) قال السدی یقول بل انا خیر من ھذا الذی ھو مھین وھکذا قال بعض نحاۃ البصرۃ ان ام ھھنا بمعنی بل (ابن کثیر) (آیت) ” لا یکادیبین “۔ خوش تقریری اس دور تمدن میں بھی ایک اعلی کمال وفضیلت سمجھی جاتی تھی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت تقریر کی کمی پر ملاحظہ ہوسورۂ طہ (پ 16) کے حاشیے۔ (آیت) ” ھذا الذی ھو مھین “۔ یعنی یہ شخص تو کوئی چھوٹا موٹا ساحاکم بھی نہیں بلکہ الٹا مع اپنے سارے کنبہ قبیلہ کے میری ادنی رعایا ہے۔
Top