Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے47 اور اپنی بات  بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟48
سورة الزُّخْرُف 47 یعنی جس کے پاس نہ مال و دولت ہے نہ اختیار و اقتدار۔ وہی اعتراض جو کفار قریش نے رسول اللہ ﷺ پر کیا تھا۔ سورة الزُّخْرُف 48 بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ فرعون کا اعتراض اس لکنت پر تھا جو حضرت موسیٰ کی زبان میں بچپن سے تھی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ سورة طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت کے منصب پر سرفراز کیا جا رہا تھا اس وقت انہوں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دیجیے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں، اور اسی وقت ان کی دوسری درخواستوں کے ساتھ یہ درخواست بھی قبول کرلی گئی تھی (آیات 27 تا 36)۔ پھر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ کی جو تقریریں نقل کی گئی ہیں وہ کمال درجے کی طاقت لسانی پر دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا فرعون کے اعتراض کی بنا کوئی لکنت نہ تھی جو آنحضرت کی زبان میں ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص نہ معلوم کیا الجھی باتیں کرتا ہے، مابدولت کی سمجھ میں تو کبھی اس کا مدعا آیا نہیں۔
Top