Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
تو کیا یہ بہتر ہوا یا میں بہتر ہوں اس سے جو ایک حقیر آدمی ہے اور اپنی بات کھل کر کہہ بھی نہیں سکتا ہے !
امرانا خیرمن ھذا الذی ھو مھین، ولایکاد یبین 52 اس آیت میں کلام کا ایک حصہ حذف ہے۔ پچھلی سورتوں میں متعدد ثمالیں اس قسم کے استفہامیہ جملوں میں حذف کی گزر چکی ہیں۔ اس حذف کو کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہوگی کہ جب مصر کی بادشاہی، اس کے دریا اور نہریں میرے قبضہ میں ہیں تو یہ شخص بہتر ٹھہرا جو ایک غلام قوم کا فرد ہے۔ اور اپنی بات کھول کر بیان بھی نہیں کرسکتا یا میں بہتر ہوں جو اس پورے ملک اور اس کی تمام دولت و ثروت کا بلا شرکت غیرے مالک ہوں ! مطلب یہ کہ جب صورتحال یہ ہے تو آخر اس شخص میں ایسی کیا بات تھی کہ خدا نے اس کو رسول بنایا۔ مھین سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ موسیٰ ؑ ایک غلام قوم کے فرد ہیں اور لایکادیبین سے حضرت موسیٰ ؑ کی قوت بیانیہ کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔ واحلل عقدۃ من لسانی کے تحت ہم یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کو لکنت وغیرہ کی قسم کا کوئی عارضہ تو نہیں تھا، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے گمان کیا ہے، البتہ وہ کوئی زبان آور خطیب نہیں تھے اور اس دور میں کسی شخص کو پبلک میں نمایاں ہونے کے لئے ساحری، شاعری اور خطابت میں سے کسی نہ کسی ایک چیز میں ممتاز ہونا ضروری تھا۔ فرعون نے ان کی اس کمزوری کا بھی طعنہ دیا کہ ایک طرف تو یہ ایک غلام قوم کا فرد، دوسری طرف خطابت پر قادر نہیں تو میرے مقابل میں ایک ایسا شخص سیادت کا مدعی کیسے ہوسکتا ہے ؟
Top