Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 88
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاکیزہ وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس اَنْتُمْ : تم بِهٖ : اس کو مُؤْمِنُوْنَ : مانتے ہو
اور کھاؤ تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو عطا فرمائی ہیں تم کو اللہ نے (اپنے فضل و کرم سے) حلال اور پاکیزہ، اور ہمشہ ڈرتے (اور بچتے) رہا کرو تم لوگ اس اللہ (کی نافرمانی) سے، جس پر تم ایمان رکھتے ہو3
215 نعمتوں سے سرفرازی کا تقاضا شکر وسپاس خداوندی : سو ارشاد فرمایا گیا اور کھاؤ [ پیو ] تم لوگ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم کو اللہ نے عطا فرمائی ہیں۔ اور اس نے تم کو وہ محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائیں ورنہ تمہارا نہ کوئی حق تھا نہ استحقاق۔ اور نہ ہی کوئی سوال و درخواست۔ سو کتنا کرم اور کس قدر فضل واحسان ہے اس وحدہ لاشریک کا تم پر۔ پس اس کے بدلے میں تم لوگ سراپا شکر وسپاس بن جاؤ اس واہب مطلق کیلئے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کہ نعمتوں سے سرفرازی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اس واہب مطلق کیلئے سراسر شکر وسپاس بن جائے تاکہ اس طرح اس کا حقِّ شکر بھی ادا ہو اور تاکہ اس طرح یہ نعمتیں تمہارے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ بھی بن سکیں ۔ اللّٰھُم ارْزُقْنَا التََّوْفِیْقَ لِذَالِکَ ۔ سو اس ارشاد ربانی سے دو بڑے عظیم الشان درس دیئے گئے۔ ایک یہ کہ انسان کو جو بھی کوئی نعمت ملتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ۔ { وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضّرُّ فَاِلَیْہِ تَجَْرَأُٔوْنَ } ۔ (النحل :53) اور دوسرا اہم درس اس ارشاد سے یہ دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کی بخشی ہوئی ان گوناگوں نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور ان پر دل و جان سے اس واہب مطلق کا شکر ادا کرے ۔ وبِاللّٰہِ التوفیق لما یُحِبُّ وَیُرِید وعلی ما یحب ویرید - 216 اکل طیبات کیلئے دو شرطیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کھاؤ پیو پاکیزہ چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ۔ سو اکل طیبات کیلئے تو دو شرطیں ہوگئیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز حلال ہو حرام نہ ہو۔ اور دوسری یہ کہ حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پاکیزہ بھی ہو۔ اسمیں کوئی ناپاک چیز شامل نہ ہو۔ تو جب حلال و پاکیزہ چیزیں بیشمار ہیں اور ان کو کھانے اور استعمال کرنے کی تمہیں اجازت بھی ہے۔ اور حرام چیزیں اس کے مقابلے میں بہت تھوڑی اور گنی چنی تو پھر تم لوگوں کو ان حلال اور پاکیزہ چیزوں کو چھوڑ کر ناپاک اور ممنوع و محذور چیزوں کی طرف لپکنے اور ہاتھ بڑھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے ؟۔ پس تم لوگوں کیلئے صحت و سلامتی کی راہ یہی ہے کہ تم اپنے خالق ومالک کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر حلال اور پاکیزہ چیزوں سے استفادہ کرو۔ اور اس پر اس واہب مطلق کا شکر ادا کرو ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 217 تقویٰ و پرہیزگاری ایمان کا تقاضا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اس اللہ سے جس پر تم ایمان رکھتے ہو کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ تم ہمیشہ اور ہر حال میں اس وحدہ لاشریک سے ڈرتے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو۔ ورنہ ایمان کا دعویٰ محض زبانی جمع خرچ ہوگا جس سے اصل مقصد پورا نہیں ہوسکتا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ ۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری ایمان کا لازمی تقاضا اور ثبوت ہے۔ اسی لیے یہاں پر اس کو ایمان کیلئے شرط قرار دیا گیا ۔ وباللّٰہِ التوفیق ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو اگر تم لوگ واقعی ایماندار ہو ۔ وباللّٰہِ التوفیق ۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری سے محرومی کی صورت میں ۔ والعیاذ باللہ ۔ ایمان و یقین کا دعویٰ محض زبانی جمع خرچ بن کر رہ جائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top