Al-Qurtubi - Al-Maaida : 88
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاکیزہ وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس اَنْتُمْ : تم بِهٖ : اس کو مُؤْمِنُوْنَ : مانتے ہو
اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو۔
آیت نمبر : 88 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وکلوا مما رزقکم اللہ حللا طیبا اس میں ایک مسئلہ ہے۔ الاکل سے مراد کھانے، پینے، پہنے اور سونے سے فائدہ اٹھنا ہے۔ اکل (کھانے) کو خصوصی طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ مقصود اعظم ہے اور انسان کے انتفاعات میں سے خاص ہے۔ کھانے، پینے اور پہننے کا ذکر سورة اعراف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ رہی لذت امیز اشیاء کی شہوت، اور شہوت والی چیزوں کی طلب میں نفس کا جھگڑنا ان پر لوگون کے نفس کو قدرت دینے میں مذاہب مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نفس کو شہوات کی اتباع سے روکنا بہتر ہے تاکہ وہ انسان کا مطیع ہوجائے گا اور اس کے عناد کو روندنا آسان ہوجائے، کیونکہ جب وہ نفس کو اس کی مراد عطا کرے گا تو بہت زیادہ شہوات میں چلنے والا ہوگا اور شہوات کا مطیع ہوگا۔ حکایت ہے کہ ابو حازم پھلوں کے اوپر سے گزرے تو نفس نے اس کی خواہش کی، ابو حازم نے نفس کو کہا : تیرے وعدہ کی جگہ جنت ہے۔ بعض دوسرے علماء نے کہا : نفس کو لذات پر قدرت دینا اولیٰ ہے، کیونکہ اس کے ارادہ کو پانے کے ساتھ نشاط اور چستی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : توسط اولیٰ ہے۔ کیونکہ کبھی نفس کو خواہش پوری کرنا اور کبھی پوری نہ کرنا دونوں امروں کو جمع کرنا ہے اور یہ بغیر کسی عیب کے نصف ہے۔ اعتدا اور رزق کا معنی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ الحمد للہ
Top