Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 88
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاکیزہ وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس اَنْتُمْ : تم بِهٖ : اس کو مُؤْمِنُوْنَ : مانتے ہو
اور کھاؤ اللہ کے دیئے ہوئے میں سے جو چیز حلال پاکیزہ ہو اور ڈرتے رہو اللہ سے جس پر تم ایمان رکھتے ہو2
2 آغاز سورت میں " ایفائے عہود " کی تاکید کے بعد حلال و حرام کا بیان شروع ہوا تھا۔ اسی ضمن میں خاص خاص مناسبات سے جن کا ذکر موقع بہ موقع ہم کرچکے ہیں، دوسرے مفید مضامین کا سلسلہ شروع ہوگیا " الشیء بالشیء یذکر " بات میں سے بات نکلتی رہی تمام استطرادی مضامین کو تمام کر کے اس پارہ کے پہلے رکوع سے پھر اصل موضوع بحث کی طرف عود کیا گیا ہے اور لطف یہ ہے کہ اس رکوع سے متصل پہلے رکوع میں جو مضمون گزرا اس سے بھی رکوع حاضر کا مضمون پوری طرح مربوط ہے۔ کیونکہ پچھلے رکوع میں یہود و نصاریٰ کی جو فضائح بیان کی گئیں سمجھنے والوں کے نزدیک ان کا خلاصہ دو چیزیں تھیں۔ یعنی یہود کا لذات و شہوات دنیا اور حرام خوری میں انہماک جو " تفریط فی الدین " کا سبب ہوا۔ اور نصاریٰ کا دین میں غلو اور افراط جو آخرکار رہبانیت وغیرہ پر منتہی ہوا۔ بلاشبہ رہبانیت جسے دینداری یا روحانیت کا ہیضہ کہنا چاہئیے، نیت اور منشائے اصلی کے اعتبار سے فی الجملہ محمود ہوسکتی تھی۔ اسی لئے (ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :82) کو من وجہ معرض مدح میں پیش کیا گیا۔ لیکن چونکہ اس طرح کا تجرد و ترک دنیا، اس مقصد عظیم اور قانون قدرت کے راستہ میں حائل تھا جو فاطر عالم نے عالم کی تخلیق میں مرعی رکھا ہے اس لئے وہ عالمگیر مذہب جو ابدی طور پر تمام بنی نوع انسان کی فلاح دارین اور اصلاح معاش و معاد کا متکفل ہو کر آیا ہے، ضروری تھا کہ اس طرح کے متبدعانہ طریق عبادت پر سختی سے نکتہ چینی کرے۔ کوئی آسمانی کتاب آج تک ایسی جامع، معتدل، فطری تعلیم انسانی ترقیات کے ہر شعبہ کے متعلق پیش نہیں کرسکتی، جو قرآن کریم نے ان دو آیتوں میں پیش کی ہے۔ ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو صاف طور پر اس سے روک دیا کہ وہ کسی لذیذ حلال و طیب چیز کو اپنے اوپر عقیدۃ یا عملاً حرام ٹھہرا لیں۔ نہ صرف یہ ہی بلکہ ان کو خدا کی پیدا کی ہوئی حلال و طیب نعمتوں سے متمتع ہونے کی ترغیب دی ہے مگر سلبی اور ایجابی دو شرطوں کے ساتھ (1) اعتداء نہ کریں (حد سے نہ بڑھیں) (2) اور تقویٰ اختیار کریں (خدا سے ڈرتے رہیں) اعتداء کے دو مطلب ہوسکتے ہیں حلال چیزوں کے ساتھ حرام کا سا معاملہ کرنے لگیں اور نصاریٰ کی طرح رہبانیت میں مبتلا ہوجائیں۔ یا لذائذ و طیبات سے تمتع کرنے میں حد اعتدال سے گزر جائیں حتٰی کہ لذات و شہوات میں منہمک ہو کر یہود کی طرح حیات دنیا ہی کو اپنا مطمح نظر بنالیں۔ الغرض غلو و جفا اور افراط وتفریط کے درمیان متوسط و معتدل راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ نہ تو لذائذ دنیاوی میں غرق ہونے کی اجازت ہے اور نہ " ازراہ رہبانیت " مباحات و طیبات کو چھوڑنے کی۔ " ازراہ رہبانیت " کی قید ہم نے اس لئے لگائی کہ بعض اوقات بدنی یا نفسی علاج کی غرض کسی مباح سے عارضی طور پر پرہیز کرنا ممانعت میں داخل نہیں۔ نیز مسلمان تقویٰ کے مامور ہیں جس کے معنی ہیں خدا سے ڈر کر ممنوعات سے اجتناب کرنا، اور تجربہ سے معلوم ہے کہ بعض مباحات کا استعمال بعض اوقات کسی حرام یا ممنوع کے ارتکاب کی طرف مفضی ہوجاتا ہے۔ ایسے مباحات کو عہد و قسم یا تقرب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق احتیاط اگر کوئی شخص کسی وقت باوجود اعتقاد اباحت ترک کر دے تو یہ رہبانیت نہیں بلکہ ورع وتقویٰ میں شامل ہے حدیث میں ہے لا یبلغ العبدان یکون من المتقین حتّٰی یَدَعَ مَالَا بَاسَ بہ حذراً ممابہ باس (ترمذی) الحاصل ترک اعتداء اور اختیار تقویٰ کی قید کو ملحوظ رکھ کر ہر قسم کے طیبات سے مومن مستفید ہوسکتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقیات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
Top