Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 88
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاکیزہ وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس اَنْتُمْ : تم بِهٖ : اس کو مُؤْمِنُوْنَ : مانتے ہو
اور جو کچھ اللہ نے تمہیں رزق دے رکھا ہے اس میں سے اچھی اور حلال چیزیں کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو
ہر حلال اور طیب چیز کھانے کی تم کو اجازت ہے کہ وہ تمہاری خاطر پیدا کی گئی ہے : 213: ” اکل “ کے معانی بلاشبہ کھانے کے ہیں لیکن نگلنے کے نہیں۔ انسانوں کی عام بول چال میں یہ لفظ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ فلاں آدمی دکان کھا گیا ، زمین کھا گیا ، اس نے زیور کھالیا۔ جس طرح اس کھالینے کا مطلب ہے وہی مطلب اس جگہ بھی ہے یعنی ” اکل “ بمعنی تمتع ہے جس کے معنی فائدہ اٹھانے یا استعمال کرنے کے ہیں خواہ کھانے ، پینے ، پہننے کی صورت میں ہو یا سواری وغیرہ کرنے کی صورت میں ہو یا عام استعمال کرنے کی صورت میں ہو۔ پھر حلال کے ساتھ طیب کی قید بھی ہر جگہ بڑھادی کہ ہر حلال چیز طیب نہیں ہوتی لیکن ہرچیز جو طیب ہوگی وہ یقینا حلال ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جس قوم کو بھی کھانے پینے یا استعمال کرنے کا حکم ملا ہر ایک کو یہی حکم ملا کہ حلال و طیب کھاؤ ۔ حلال و طیب پیو اور حلال وطیب استعمال کرو پھر ” طیب “ کا مخالف ” خبث “ ہے اور ہر قوم کو ” خبث “ سے منع فرمایا کہ حلال وطیب استعمال کرو لیکن ” خباء ث “ کے قریب نہ جاؤ اس لئے کہ ہر خبیث چیز حرام ہے۔ جہاں اہل کتاب کے کھانے کو حلال ٹھہرایا ہے وہاں بھی یہ قید بڑھائی ہے کہ اہل کتاب کے وہی کھانے تم کھا سکتے ہو جو طیب ہوں کیوں ؟ اس لئے کہ اہل کتاب کو طیبات ہی کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے ۔ اہل کتاب اپنے دستر خوان پر جو کچھ چن دیں اس کے کھاجانے کا حکم قطعاً قرآنی حکم نہیں ہے بلکہ یہ وہی ” چیل حلال “ کرنے والی بات ہے اور ” ہل لمبی ڈالنے “ والا معاملہ ۔ قرآن کریم کے بیان کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے جس کی گرفت اس جگہ ” قومی پستی اور ذلت “ کی صورت میں قوم مسلم کو مل رہی ہے اور آخرت کی سزا اس سے سوا ہے اور اہل کتاب کے دستر خوان پر ہر شے کھاجانے کے فتوے صادر کرنے والے یقینا عند اللہ مجرم ہیں۔ یہ الٹے ہاتھ سے کان پکڑنے والے مسلمانوں کے کھانوں پر تو پابندیاں عائد کرتے ہیں لیکن اہل کتاب کے دستر خوان پر پہنچ کر ان کی گرفت بالکل ڈھیلی پڑجاتی ہے حالانکہ قرآن کریم نے ان کے کھانوں پر طیبات کی پابندی برقرار رکھی ہے جو ان لوگوں کو نظر نہیں آتی اور یہ لوگ برملا لکھ دیتے ہیں کہ : ” مسلمانوں کے لئے اہل کتاب کا کھانا حلال کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کے ” پادری اور اہل دین ‘ ‘ جو کھانا بھی کھاتے ہیں ” بجزلحم خنزیر “ وہ مسلمانوں کے لئے حلال ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے ذبیحوں پر یہ شرط عائد نہیں کی گئی کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا وہ اہل اسلام کے طریقے پر ذبح کیا گیا ہو۔ “ (تفہیمات) ” ان مفتیوں سے کوئی پوچھے کہ ” پادری اور اہل دین “ اور ” بجزلحم خنزیر “ کی قید تم نے قرآن کریم کی کس آیت یا کس حکم سے اخذ کی ہیں ؟ ذرا اس کی نشاندہی کردو ورنہ تمہاری اس قید کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس ” دال میں کچھ کالا ہے۔ “ جس کو دیکھ کر تم نے یہ قید بڑھائی ہے ۔ ہمارا دنیا کے سارے اہل علم سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ کسی ایک چیز کو جو اہل کتاب کے کھانے میں اللہ نے حلال ٹھہرائی تھی اور اہل اسلام کے لئے اس کو حرام کردیا گیا ، نکال کر دکھائیں ۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ایک چیز کی بھی وہ نشاندہی نہیں کرسکیں گے ۔ ہاں ! کچھ چیزیں جو اہل کتاب کے لئے بھی حلال تھیں اور اہل اسلام کے لئے بھی لیکن اہل کتاب نے خود جب ان کو حرام ٹھہرالیا تو ان کو سزاء ً حرام ہی رکھا گیا تو یہ حرمت ان کے ظلم کے باعث تھی جو انہوں نے من حیث القوم اپنے لئے خود ٹھہرالی تھی اور جس کء تکوینی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی جس طرح ہر خیرو شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے کہ وہ خیر و شر دونوں کا خالق ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے کبھی کسی ” شر “ کے کرنے کا حکم دیا ہو تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ ممتنع ہے۔ یاد رہے کہ جس طرح مسلمانوں کے دستر خوان پر کوئی حرام چیز رکھ دینے سے حلال نہیں ہوجاتی بالکل اسی طرح کوئی حرام چیز اہل کتاب کے دستر خوان پر رکھنے سے حلال نہیں ہو سکتی اس لئے کہ کوئی حرام چیز جو اللہ نے اہل اسلام کے لئے حرام ٹھہرائی ہو اہل کتاب کے لئے حکماً حلال نہیں ٹھہرائی کہ دونوں گروہوں کے کھانے میں کوئی فرق یا تضار ہو۔ اس لئے قرآن کریم نے دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے کو جائز رکھا۔ زیر نظر آیت میں بھی اہل اسلام کے لئے یہی حکم دیا گیا ہے کہ ” جو کچھ اللہ نے تمہیں رزق دے رکھا ہے اس میں سے حلال اور طیب چیزیں کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے ہو۔ “ یعنی کھانے پینے کے معاملہ میں حدود سے تجاوز نہ کرو بلکہ تقویٰ اختیار کرو ” جس پر تم پر ایمان لائے ہو۔ “
Top