Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 53
اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَؕ
اٰخِذِيْنَ : لینے والے مَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۭ : جو دیا انہیں انکا رب اِنَّهُمْ كَانُوْا : بیشک وہ تھے قَبْلَ ذٰلِكَ : اس سے قبل مُحْسِنِيْنَ : نیکوکار
(وہ بڑھ بڑھ کر) لے رہے ہوں گے ان نعمتوں کو جو انکو بخشی ہونگی ان کے رب نے کیونکہ وہ اس دن سے پہلے (دنیا میں) نیکوکار تھے
[ 12] صفت احسان باعث سرفرازیء دوجہان : سو اہل جنت کے نعیم جنت سے سرفرازی کی علت اور اس کے سبب کو بیان کرنے کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک وہ اس سے پہلے نیک و کار تھے۔ یعنی اپنی دنیاوی زندگی میں، کہ ان کی نیتیں بھی ٹیک تھیں۔ عقائد بھی صحیح تھے، اور ان کے عمل بھی درست تھے۔ اللہ سب کو توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ نہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو اس عظیم الشان صلہ اور بدلہ سے اس لئے نوازا گیا کہ یہ محسن اور نیکوکار تھے، اور یہ ہر کام اس طرح کرنے کی کوشش کرتے تھے جس طرح کہ اس کے کرنے کا حق تھا۔ اور یہ صفت انہی لوگوں کے اندر پائی جاسکتی ہے جن کے اندر سزاوجزا کا عقیدہ راسخ ہو۔ کیونکہ یہ عقیدہ جن لوگوں کے اندر راسخ ہوتا ہے وہی لوگ دوہرا کام اس طرح کرتے ہیں کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ اس ایمان و یقین سے سرشار ہوتے ہیں کہ اگر وہ خدا کو نہیں دیکھ رہے تو خدا تو یقینا اور بہرحال ان کو دیکھ رہا ہے۔ یہاں پر متقین کیلئے محسنین کی صفت کا ذکر فرما کر ان متقی لوگوں کے باطن پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ لوگ چونکہ سزاو جزا پر ایمان و یقین رکھنے والے تھے اس لئے ان کا تقویٰ صرف ظاہر دارانہ تقویٰ نہیں تھا بلکہ اس کے اندر احسان کی روح بھی موجود تھی۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید،
Top