Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 16
اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَؕ
اٰخِذِيْنَ : لینے والے مَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۭ : جو دیا انہیں انکا رب اِنَّهُمْ كَانُوْا : بیشک وہ تھے قَبْلَ ذٰلِكَ : اس سے قبل مُحْسِنِيْنَ : نیکوکار
پا رہے ہیں گے جو کچھ ان کے رب نے ان کو بخشا۔ بیشک وہ اس سے پہلے خوب کاروں میں تھے۔
اخذین ماتھم ربھم ط انھم کانوا قبل ذلک محسنین 16 جنہوں نے دنیا میں خدا کی پابندیوں کا احترام کا یا ان کے لئے آخرت میں آزادی یہ ان نعمتوں سے ان کے آزادانہ متمتع ہونے کی تصویر ہے۔ اخذین حال واقع ہے اس وجہ سے میرے نزدیک یہ صورتحال کی تصویر کا فائدہ دے رہا ہے یعنی وہ دمبدم وہ کچھ پا رہے ہوں گے جو ان کے رب نے ان کو عطا فرمای۔ ما اتھم ربھم میں صیغہ ماضی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جہاں تک دیئے جانے کا تعلق ہے اس کا فیصلہ اور وعدہ تو ان کے رب نے پہلے ہی سے کر رکھا ہے، اس بات میں ان کو کسی نئے فیصلے کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ اب صرف ان نعمتوں سے متمع و محظوظ ہونے کا دور ہوگا۔ وہ جس چیز کے خواہشمند ہوں گے اپنے رب کے بخشے ہوئے غیر فاننی ذخائر میں سے لیں گے اور جتنا چاہیں گے اور جب چاہیں گے لیں گے۔ ان کے اوپر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ انہوں نے دنیا میں اپنے رب کی عائد کردہ پابندیوں کا احترام کیا۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ ان کو تمام نعمتیں بخش کر آزاد چھوڑ دے گا کہ اب ان سے جس طرح چاہو متمتع ہو، تم پر کوئی پابندی باقی نہیں رہی۔ تقویٰ کے اندر احسان کی روح انھم کانوا قبل ذلک محسنین یہ ان کے اپور اس بےپایاں انعام کی علت بیان ہوئی ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے دنیا کی زندگی میں محسنین میں رہے ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر انعام فرمائے گا محسنین کا ترجمہ ہم نے اس کتاب میں جگہ جگہ خوب کار کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے رب کے ہر حکم کی تعمیل اس طرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح اس کے کرنے کا حق ہے۔ یہ صفت صرف ان لوگوں کے اندر پیدا ہوتی ہے جن کے اندر جزاء و سزا کا عقیدہ راسخ ہو۔ یہ عقیدہ جن کے اندر راسخ ہوتا ہے وہ ہر کام اس طرح کرتے ہیں گویا وہ خدا کو دیکھ رہے ہی، اس لئے کہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ خدا کو نہیں دیکھ رہے ہیں تو خدا تو بہر حال ان کو دیکھ رہا ہے۔ متقین کے لئے محسنین کا لفظ اسعتمال کر کے ان کے باطن پر روشنی ڈلای گئی ہے کہ یہ لوگ چونکہ جزاء و سزا پر یقین رکھنے والے تھے اس وج سے ان کا تقویٰ محض ظاہر دارانہ تقویٰ نہیں تھا بلکہ اس کے اندر احسان کی روح تھی۔ اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ یہی تقویٰ اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و قیمت رکھتا ہے اور جزاء و سزا کے راسخ اعتقاد سے پیدا ہوتا ہے۔
Top