Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 57
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ
مَآ اُرِيْدُ : نہیں میں چاہتا مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ رِّزْقٍ : کوئی رزق وَّمَآ اُرِيْدُ : اور نہیں میں چاہتا اَنْ : کہ يُّطْعِمُوْنِ : وہ کھلائیں مجھ کو
نہ تو میں ان سے کوئی روزی چاہتا ہوں اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں
[ 59] بندوں کی اصل ذمہ داری عبادت و بندگیئِ خداوندی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بندوں کی اصل ذمہ داری عبادت و بندگیئِ خداوندی ہے۔ چناچہ ارشادد فرمایا گیا کہ نہ میں ان سے کوئی روزی چاہتا ہوں اور نہ ان سے یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں۔ کہ مجھے ان میں سے کسی بھی چیز کی نہ کوئی ضرورت ہے، نہ حاجت۔ پس بندوں کے ذمے میری عبادت ہے اور میرے ذمے ان کی روزی۔ سبحان اللّٰہ !۔ کیسی صاف وصریح اور واضح تقسیم ہے کہ بندے کے ذمے اصل فریضہ اپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرنا اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانا ہے، اور اس کی روزی کا انتظام اللہ پاک خود فرمائے گا سبحانہ وتعالیٰ لیکن افسوس کہ بندوں کی اکثریت نے آج اپنے اصل فریضہ اور حقیقی ذمہ داری یعنی بندگی و معرفت خداوندی کے فریضہ کو چھوڑ کر روزی کی فکر و تلاش کو اپنا اصل مقصود بنا لیا ہے۔ یعنی معاملہ بالکل الٹا کردیا۔ کہ لوگوں نے رب کی معرفت اور اس کی عبادت بندگی اور اس کے تقاضوں کو بھلا کر اور پس پشت ڈال کر رزق و روزی کی فکر و کوشش کو ہی اپنا مقصد اور نصب العین بنادیا، جس کا نتیجہ ہے کہ آج سب ہی پر یشانیوں درپریشانیوں کا شکار ہیں، الا ما شاء اللّٰہ، سنن ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم تو میری عبادت کے لئے فارغ ہوجا میں تیرے سینے کو غنی [ دولت مندی ] سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو رفع کردوں گا، اور اگر تو نے ایسے نہ کیا تو میں تیرے سینے کو مشغولیت سے بھردوں گا۔ اور تیری حاجت کو رفع نہیں کروں گا [ ابن کثیر، قرطبی، مراغی وغیرہ ] ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف۔
Top