Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
جو بھی کوئی درخت کھجور کا تم لوگوں نے کاٹا (اے مسلمانو ! ) یا اسے باقی رہنے دیا اپنی جڑوں پر تو یہ سب کچھ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور (اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ) تاکہ وہ رسوا کرے ان بدکاروں کو
[ 13] منکرین کے ایک اعتراض کا جواب : سو اہل ایمان کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ جو کچھ بھی تم لوگوں نے اس دوران کیا اے مسلمانو ! وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا، جو اللہ پاک نے اپنے پیغمبر کو وحی کے ذریعے ارشاد فرمایا تھا، سو اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن حکیم کے علاوہ بھی وحی آتی تھی، کیونکہ یہ اذن و حکم جس کا ذکر یہاں پر فرمایا جا رہا ہے، قرآن پاک میں کہیں بھی مزکور نہیں، جس کا لازمی مطلب یہی ہے کہ حکم آنحضرت ﷺ کو وحی خفی یعنی حدیث ہی میں دیا گیا تھا ﷺ روایات کے مطابق بنو نضیر کے محاصرے کے دوران آنحضرت ﷺ نے کھجور کے کچھ درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا جن کو جنگی نقطہ نظر سے کاٹنا ضروری تھا، نیز اس لیے کہ تاکہ یہ یہود کے غیظ و غضب کا موجب بنے، اور وہ قلعوں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوجائیں، تو اس پر یہودیوں نے اعتراض کیا اور مسلمانوں پر آوازے کسے کہ تمہارے پیغمبر دوسروں کو تو فساد سے منع کرتے ہیں، لیکن خود ان بےگناہ اور نفع بخش درختوں کو اس بےدردی سے کاٹ رہے ہیں، کیا یہ " فساد فی الارض " نہیں ہے ؟ وغیرہ، تو اس پر بعض اصحابہء کرام کے دلوں میں بھی کسی قدر شک سا پیدا ہوا تو انہوں نے اس بارے میں آنحضرت ﷺ سے عرض کیا، تو اس کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ یہ سب کچھ اذن خداوندی ہی سے تھا، اور اللہ پاک کا ہر حکم و ارشاد ظاہر ہے کہ برحق اور مبنی برحکمت ہی ہوتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو ان لوگوں کا اس بارے اعتراض بالکل لغو اور باطل ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف۔ [ 14] یہود بنو نضیر کی رسوائی کے ایک سامان کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم و ارشاد اس لئے فرمایا کہ تاکہ وہ رسوا کرے ان بدکاروں کو۔ کہ آج ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے اموال و ممتلکات پر ان کے دشمنوں کا حکم اس طرح چل رہا ہے، کہ جس درخت کو وہ چاہیں کاٹیں، اور جس کو چاہیں کھڑا چھوڑ دیں۔ سو ان کے درختوں کو جن کو انہوں نے بڑے شوق اور ارمانوں سے لگایا، اور بڑی محنت و مشقت سے پالا پوسا تھا، آج ان کو ان کی آنکھوں کے سامنے اس طرح کاٹا جا رہا ہے، اور یہ اس کے جواب میں یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے، اس سے ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی، اس کا اندازہ ہی ان کے سوا اور کون کرسکتا ہے ؟ اور فاسق کا اطلاق کافر پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ یہاں پر ہے، اور یہ اس لئے کہ اس کے اصل معنی " خروج عن الاطاعت " کے ہیں، اور اطاعت خدواندی سے خروج کی مختلف شکلوں میں سب سے بڑی مشکل کفر و انکار ہی کی ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم، سو اس سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جنگی نقطہ نظر سے درختوں کو کاٹنا درست ہے، اور ایسے میں درخت کیا اگر ضرورت متقاضی ہو تو وہ دشمنوں کے مکانوں کو مسمار کرنا بھی جائز ہے اور دوسری طرف اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ غداروں اور عہد شکنوں کی تذلیل و رسوائی بھی ایک اہم مقصد ہے، تاکہ اس طرح کفر اور اہل کفر کی تذلیل ہو اور ان کو اپنے بارے میں سوچنے اور راہ حق کو اپنانے کا موقع مل سکے، اور وہ آخرت کے عذاب مہین سے بچ سکیں، کہ آخرت کا عذاب بڑا ہی ہولناک ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین، ویا اکرم الاکرمین،
Top