Tafseer-e-Madani - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
تو کیا یہ لوگ (اپنے سامنے چلتے پھرتے ان) اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کس طرح پیدا کیا گیا ؟
(8) جانوروں میں غور و فکر کی دعوت : سو جانوروں میں غور و فکر کی دعوت و ہدایت کے سلسلے میں عربوں کے خاص تعلق والے اور امتیازی شان رکھنے والے جانور اونٹ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیا گیا ہے ان کو ؟ " اور کیا کیا خصائل اور فوائد قدرت نے ان کے اندر ودیعت فرمائے ہیں ؟ اور کس کس طرح سے انسان ان سے دن رات مستفید و فیضیاب ہوتا ہے ؟ تو کیا یہ لوگ سوچتے نہیں کہ کس طرح قدرت نے اس " عظیم الجثہ " اور " طویل القامت " جانور کو ان کے تابع کر رکھا ہے۔ یہ ان کے سفر و حضر کا ساتھی، اور خدمت گار، وفا شعار اور جاں نثار ساتھی ہے، قدرت نے اس کو کس شکل و شان کا بنایا، کیسی عظیم الشان صفات اور خصوصیات اس کے اندر رکھیں، حضر میں یہ رات دن میں ان کا ساتھی اور سفر میں یہ ان کا بار بردار رفیق، اور صحرا میں ان کا سفینہ ہے۔ ہفتہ ہفتہ بھوک پیاس برداشت کرنے والا صابر خدمت گزار، اس کے سر سے لے کر اس کے پاؤں تک کی ہر چیز ان کے کام آنے والی ہے، آخر اس کو کس نے اس پر حکمت طریقے سے پیدا کر کے انسان کے کام میں لگا دیا۔ سو وہی اللہ وحدہ لا شریک، اور اس نے صرف اونٹ کو ہی نہیں بلکہ ہر جانور کو اسی طرح اور اسی شان کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ اور وہی معبود برحق ہے، واضح رہے کہ یہاں پر عربوں کے خاص ذوق، اور ان کے لیے مخصوص جغرافیائی حالات کے اعتبار سے اونٹ کا ذکر بطور مثال فرمایا گیا ہے، ورنہ اصل حقیقت کے اعتبار سے ہر جانور کا وجود اسی طرح قدرت کی رحمت و عنایت اور بندوں کی نفع رسانی کے لحاظ سے حضرت حق جل مجدہ کی عنایت کا شاہکار ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ، جل شانہ وعم نوالہ۔
Top