Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 77
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عَدُوٌّ لِّيْٓ : میرے دشمن اِلَّا : مگر رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
وہ میرے دشمن ہیں ؟ مگر خدائے رب العالمین (میرا دوست ہے )
77: فَاِنَّھُمْ (پس بیشک وہ) یعنی اصنام عَدُوٌّ لِّیْ (میرے دشمن ہیں) عد و اور صدیق ؔ یہ دونوں لفظ واحد و جمع کیلئے مستعمل ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر تم پوجا کرو تو قیامت کے دن وہ میرے دشمن ہونگے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا سیکفرون بعبادتہم ویکونون علیھم ضدًا ] مریم : 82[ قول فراء : یہ کلام مقلوب کی قسم ہے مطلب اس طرح ہے : فانی عدولھم ( کہ میں ان کا دشمن ہوں) حالانکہ آپ کے قول میں عدوٌلی ہے عدولکم نہیں۔ ان کی زیادہ خیر خواہی کرتے ہوئے قبولیت حق کی دعوت دی ہے اگر آپ فانہم عدولکم فرماتے تو کلام سے یہ مقصد پورا نہ ہوتا۔ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ (مگر رب العالمین ) ۔ نحو : یہ استثناء منقطع ہے کیونکہ وہ اعداء کے تحت داخل ہی نہیں کہ الا سے خارج کیا جائے گویا اس طرح فرمایا لٰکن رب العالمین لیکن رب العالمین میرا دوست ہے۔
Top