Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 77
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عَدُوٌّ لِّيْٓ : میرے دشمن اِلَّا : مگر رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
وہ میرے دشمن ہیں۔ مگر خدائے رب العالمین (میرا دوست ہے)
فانہم عدولی پس بیشک وہ میرے دشمن ہیں۔ اپنا دشمن کہنے سے درپردہ یہ مراد ہے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں تم کو ان کی پوجا کرنے سے ایسا ضرر پہنچے گا جو کسی شخص کو اپنے دشمن سے نہیں پہنچتا۔ مہربان واعظ کی نصیحت کرنے کا یہ مؤثر طریقہ ہی ہے کہ پہلے وہ اپنی ذات کو مخاطب کرتا ہے اور مقصد ہوتا ہے دوسروں کو نصیحت کرنا۔ اسی قسم کا استعمال دوسری آیت میں آیا ہے فرمایا ہے وَمَالِی لاَ اَعْبد الِّذی فطرنی یعنی کیا وجہ کہ تم اپنے خالق کی عبادت نہ کرو۔ جمادات کی طرف دشمن ہونے کی نسبت مجازی ہے یا تو اس وجہ سے کہ وہ ضرر پہنچانے کا ذریعہ ہیں یا اس وجہ سے کہ قیامت کے دن وہ دشمن بن جائیں گے اللہ نے فرمایا ہے سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیُکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا۔ عدو بروزن فعول اصل میں مصدر ہے جیسے قبول اسی لئے اس کو بصیغۂ مفرد ذکر کیا یا ہُمْ سے مراد ہے۔ کُلُّ مَعْبُوْدٍ لَکُمْ تمہارا ہر معبود میرا دشمن ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عدو اور صدیق صفت کے صیغے بروزن فعول و فعیل ہیں ان کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی رَجُلٌ عَدُوٌّبھی کہا جاتا ہے اور قَوْمٌ عَدُوٌّبھی۔ اللہ نے فرمایا ہے (فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ ) دوسری آیت میں آیا ہے (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیِّ عَدُوًّا شَیَاطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ ۔ ) الا رب العلمین۔ مگر رب العالمین۔ یہ استثناء منقطع ہے (یعنی الاَّ کا معنی ہے لیکن) گویا یوں فرمایا کہ وہ سب میرے دشمن ہیں مگر رب العالمین کہ وہ میرا دوست ہے۔ بعض اہل علم نے کہا کہ قوم ابراہیم بتوں کے ساتھ اللہ کی بھی عبادت کرتے تھے حضرت ابراہیم نے فرمایا تمہارے سارے معبود سوائے رب العالمین کے میرے دشمن ہیں یا یوں کہا جائے کہ ان کے آبا و اجداد میں سے کچھ لوگ اللہ کو مانتے اور اس کی عبادت کرتے تھے (ان دونوں صورتوں میں استثناء متصل ہوگا) ۔
Top